تبصرہ کُتب
جائزہ کتاب "الکیمسٹ" اردو ترجمہ از محمد ذکی کرمانی

اسلامی تصوف پر مبنی ایک معروف کہانی پاولو کوئیلو کی پرتگالی ناول "الکیمسٹ" کی کہانی ایک نوجوان اندلسی چرواہے کے گرد گھومتی ہے۔ اندلس کے میدانوں سے شروع ہو کر افریقی ریگستان میں پھلتی پھولتی ہوئی اہرامِ مصر کے قریب کمال کو پہنچ کر پھر اندلس میں ختم ہوتی ہے۔ ناول کا اردو ترجمہ محمد ذکی کرمانی نے اضافے کے ساتھ کیا ہے اور ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، نئی دہلی نے اسے شائع کیا ہے۔ کل صفحات ایک سو باون ہیں، قیمت ایک سو اسی روپے ہے اور نہایت اعلیٰ معیار کا کاغذ استعمال ہوا ہے۔ سرورق ہاتھ لگانے سے نہایت ہی ملائم اور عمدہ محسوس ہوتا ہے۔
اس ناول کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں اس کی کم از کم چھ کروڑ پچاس لاکھ (65 million) اور بعض ذرائع کے مطابق تقریباً ڈیڑھ سو ملین (150 million) تک کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اسی طرح اس کا ترجمہ دنیا کی تقریباً اسی (80) زبانوں میں کیا گیا ہے، اگرچہ مختلف ذرائع کے مطابق یہ تعداد 67 سے 88 زبانوں کے درمیان ہے۔
میں نے اس کتاب کے بارے میں بہت دفعہ سنا تھا اور بار بار دل میں یہ تمنا جاگی کہ اس کو خریدوں لیکن دو تین بار کوشش کے باوجود بھی میسر نہ ہوسکی۔ اگرچہ اس سلسلے میں میری کوشش زیادہ مخلصانہ نہیں تھی لیکن قریباً سات آٹھ مہینے قبل میرے چچیرے بہنوئی ملک واجد مشتاق صاحب نے مجھے اپنی ذاتی لائبریری کا وزٹ کرایا، وہاں اس ناول کا انگریزی ترجمہ "دی الکیمسٹ" موجود تھا۔ میں نے اس کتاب کو فوراً ہی دیکھنا شروع کیا انہوں نے بھی اس کتاب کے تئیں میری دلچسپی بھانپ کر خود ہی یہ کتاب مجھے تھما دی۔ میں نے گھر آکر اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد حال ہی سرینگر کے ایس کے آئی سی سی میں منعقدہ دس روزہ عظیم الشان کتاب میلے میں جب ہدایت پبلشرز کے اسٹال پر اس کتاب کے اردو ترجمے پر نظر پڑی تو میں نے فوراً اسے خرید لیا اور گھر آکر پوری کتاب کا گہرائی کے ساتھ پھر سے مطالعہ کیا۔
پاولو کوئیلو کا یہ شہرہ آفاق ناول دنیا کی ان چند کتابوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے قارئین کے دلوں کو چھو لیا۔ پہلی بار 1988ء میں پرتگالی زبان میں شائع ہونے والی یہ کتاب اب درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اردو میں محمد ذکی کرمانی کا ترجمہ نہایت رواں، سادہ ، سلیس اور دلکش ہے جو اصل متن کی روح کو بخوبی منتقل کرتا ہے۔ ناول کی کہانی ایک اندلسی چرواہے سانتیاگو کے گرد گھومتی ہے جو بار بار ایک خواب دیکھتا ہے کہ مصر کے اہرام کے قریب خزانہ دفن ہے۔ اس خواب کو اپنی تقدیر کی علامت سمجھتے ہوئے وہ سفر پر نکلتا ہے اور راستے میں اسے کئی رہنما اور رفیق ملتے ہیں۔ ملک صادق، ایک انگریز کیمیاگر کا طالب علم، صحرا کے قافلے والے اور سب سے بڑھ کر ایک دانا الکیمسٹ۔ ہر شخص اسے اپنی منزل کے قریب لے جاتا ہے اور وہ سیکھتا ہے کہ اصل خزانہ صرف سونے چاندی میں نہیں بلکہ اپنے ذاتی خواب کو پورا کرنے میں ہے۔
ناول کے مرکزی موضوعات میں ذاتی خواب یعنی Personal Legend، ایمان اور بھروسہ، محبت اور قربانی اور خود شناسی شامل ہیں۔ کتاب یہ یقین دلاتی ہے کہ جب انسان کسی مقصد کو پانے کی سچی خواہش رکھتا ہے تو پوری کائنات اس کے حصول میں مدد کرتی ہے۔ سانتیاگو کی فاطمہ سے محبت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ حقیقی محبت خوابوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی بلکہ ان کو پورا کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ آخرکار سانتیاگو یہ جان لیتا ہے کہ اصل خزانہ اس کے دل میں پوشیدہ تھا۔
یہ کتاب کئی سبق آموز پیغامات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں : جو اپنی تقدیر کے حصول کے لیے کوشاں ہے وہ ہر ضروری بات سیکھ لیتا ہے، ناممکن صرف ناکامی کے ڈر سے ہوتا ہے، رات کا سب سے تاریک لمحہ وہ ہے جس کے فوراً بعد صبح طلوع ہوتی ہے، اور ہر جستجو کے آغاز میں خوش قسمتی ساتھ ہوتی ہے لیکن حقیقی کامیابی سخت اور شدید امتحان کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔
محمد ذکی کرمانی نے نہایت مہارت سے ناول کے فلسفیانہ اور روحانی اسلوب کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ زبان کی روانی، سلیس انداز اور علامتی پہلوؤں کی ترجمانی اس ترجمے کو خاص بناتی ہے۔ کاغذ، طباعت اور سرورق کے اعلیٰ معیار نے اس کی وقعت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
الکیمسٹ محض ایک ناول نہیں بلکہ ایک روحانی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ ہر اس شخص کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے جو اپنی منزل، اپنی ذات اور اپنے خواب کو پہچاننا چاہتا ہے۔ یہ کتاب نوجوانوں اور خواب دیکھنے والوں کو یہ حوصلہ دیتی ہے کہ مشکلات کے باوجود خواب اور ایمان پر قائم رہنے والا ہی حقیقی کامیاب ہوتا ہے۔حصول مقصد کی راہ میں حائل مشکلات ، رکاوٹیں نہیں بلکہ استقلال کا امتحان ہیں، اور اگر دل زندہ ہو اور آنکھوں پر پردے نہ پڑے ہوں تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اس جدو جہد کے دوران رہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں اور اس معاونت اور رہنمائی کو دیکھ لینا ذرا بھی مشکل نہیں۔ یہ ناول بتاتی ہے کہ اگرچہ تجربہ، تجزیہ اور تحلیل معاشرتی ارتقاء کے انتہائی اہم عناصر ہیں لیکن اُن پر مکمل انحصار سے انسان کی مشاہداتی قوتیں محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ فطرت سے دوستی کے بجائے اُس پر مالکانہ حقوق کے تصور سے علم و حکمت کے ایک بہت بڑے خزانے سے انسان محروم ہوجاتے ہیں۔
کتاب کے تعارفی پیراگراف میں ہی معروف مغربی اسلامی اسکالر طارق رمضان صاحب کا اس کتاب کے حوالے سے تاثرات یوں درج ہوئے ہیں: "پاؤلو کوئلو نے اپنے عظیم ناول الکیمسٹ میں اسلامی تصوف کی قدیم روایت اور عمیق تعلیمات کو اجاگر کیا ہے۔ جاؤ سفر کرو، غور سے دیکھو، حقیقتوں کو تلاش کرو، اسرارِ حیات کی پردہ کشائی کرو ہر راستہ اپنے آغاز ہی پرختم ہوگا ۔ آگہی اور رازوں کا سر چشمہ وہیں ہے جہاں سے چلے تھے ۔ سفر اختتام کی طرف نہیں بلکہ آغاز کی سمت میں ہے۔ جانا یہاں واپسی کے معنی میں ہے، دریافت دراصل اظہار ہے جاؤ تم واپس آؤ گے۔"
رابطہ: anayatbinnazir@gmail.com