اہم ترین
صحرائے لیبیا کی روشنی: امام محمد بن علی سنوسی اور ان کی تحریک

میرے کچھ دوست،احباب اصرار کر رہے تھے کہ میں آج کی نشست میں لیبیا کے مرد مجاہد اور صحرا کے شیر "عمر مختار" پر قلم اٹھاؤں۔احقر نے کسی حد تک علمی مواد جمع بھی کیا تھا مگر مناسب یہی لگا کہ "عمر مختار" پر کچھ لکھنے سے پہلے "سنو سی تحریک" اور بانی تحریک "محمد بن علی سنوسی" کے بارے میں زمین تیار کرتے ہوئے کچھ لکھوں۔ انشاءاللہ اگلی نشست میں "صحرا کے شیر"کے عنوان سے عظیم مرد مجاہد عمر مختار کے حالات زندگی پر روشنی ڈالیں گے ۔
انیسویں صدی عالم اسلام کے لیے پریشان کن تھی۔ کیونکہ صدیوں کی شان و شوکت زوال پذیر ہو رہی تھی۔ مسلم امہ سیاسی، سماجی، روحانی اور مذہبی لحاظ سے زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ان حالات میں مسلم دنیا میں تجدید و احیائے دین کی کچھ تحریکیں وجود میں آئیں تاکہ اسلام کے پیروکار سنبھل کر پھر سے برگ و بہار لائیں ۔ان تحریکوں میں سے ایک اہم ترین تحریک شمالی افریقہ کی "سنوسی تحریک" تھی۔اس کا دائرہ کار شمالی افریقہ کا ملک لیبیا اور اس کے جنوبی صحرائی علاقے تھے۔
سنوسی تحریک کے بانی عالم اسلام کے مشہور بزرگ اور مصلح "محمد بن علی سنوسی" جن کو سنوسی حلقوں میں "سنوسی کبیر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ محمدبن علی سنوسی الجزائر کے ساحلی شہر مستغانم کے ایک محلے "الواسطیہ" میں 22 دسمبر 1787ء کو پیدا ہوئے ۔دو برس کی عمر میں آپ یتیم ہوئے اور آپ کی تعلیم و تربیت آپ کی چچی سیدہ فاطمہ نے احسن طریقے سے کی۔ آپ نے بچپن ہی میں قران مجید حفظ کر لیا اور مقامی علماء و فقہاء سے تفسیر ،حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں آپ نے فاس کی مشہور جامعہ"جامعہ قزوین" میں داخلہ لیا اور اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی اور اسی جامعہ میں 14 سال تک درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔1825 ء میں آپ نے مصر اور حجاز کا رخ کیا، تاکہ وہاں کے علماء سے مزید استفادہ کریں ۔مگر آپ کے اجتہادی نظریہ سے "جامعہ اظہر "کے علماء نے اختلاف کیا لہذا آپ حجاز پہنچ گئے اور 1837 ء میں مکہ معظمہ میں سنوسی تحریک کا پہلا تعلیمی اور اصلاحی مرکز جس کو سنوسی تحریک کی اصطلاح میں "زاویہ" کہتے ہیں کی بنیاد رکھی۔ 1840 ء میں "سنوسی کبیر" نے لیبیا کا رخ کیا تاکہ وہاں دعوتی اور اصلاحی کام کا فریضہ انجام دیں۔لیبیا میں جبل اخضر پر پہلا سنوسی مرکز زاویہ البیضاء کے نام سے شروع کیا۔یہیں سے سارے افریقہ کو مرکز بنا کر مسلم امہ کی اصلاح اور اسلامی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔سنوسی تحریک کی طرف سے قائم کیے جانے والے ان زاویوں نے رفتہ رفتہ اتنی مقبولیت پائی کی سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی چونکہ لیبیا پر اس وقت عثمانی سلطنت کی حکمرانی تھی اور محمد بن علی سنوسی نے سیاسی ٹکراؤ کے برخلاف حکمت سے کام لے کر صحرائی لیبیا کے اندر "جغبوب" کے مقام پر 1856 ء میں ایک عظیم الشان زاویہ قائم کیا جس سے یہ پورا علاقہ منور ہو گیا۔ اپنی دینی دعوت اور سنوسی تحریک سے متاثر رفقا جن کو اخوان کہا جاتا تھا کی جسمانی مشقت سے صحرا خوشحالی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ سات ستمبر 1859ء کو "سنوسی کبیر" محمد بن علی سنوسی اللہ کو پیارے ہو گئے۔
جیسا کہ ہم سنوسی کبیر کی تحریک کا مطالعہ کرتے ہیں اور زاویوں کا نظام پاتے ہیں تو اپنے قارئین کے لیے زاویوں کی ہیئت اور اس کے ترکیبی نظام پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں گے۔
سنوسی زاویہ عام طور پر ایک زرخیز قطعہ زمین میں قائم کیا جاتا اور اس کی تعمیرات کی ترکیب اس طرح ہوتی:
1) مسجد: یہ زاویہ کا سب سے اہم حصہ ہوتی اور نبوی دور کی طرح نماز پڑھنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
2 ) مدرسہ یا اسکول: یہ زاویہ میں دوسری اہم جگہ ہوتی ان کو مکاتب قرآنیہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا ۔یہاں پر سنوسی اخوان کے بچوں کو قران، اصول دین، عقائد اسلام اور عربی زبان کی تعلیم دی جاتی تھی۔یہ تعلیم لازمی تھی اور کوئی شخص بلا وجہ اپنے بچوں کو ان مدارس سے نکال نہیں سکتا تھا ۔
3) مضافہ یا مہمان خانہ
4 ) مخزن یعنی سامان رکھنے کے لیے گودام
5) رہائشی مکانات: زاویہ کے اندر شیخ (امیر) اور دوسرے کارکنوں کی رہائش کے لیے مکانات یہیں تعمیر کیے جاتے تھے ۔
6 ) طلباء کی کمرے
7 ) مطبخ : یہاں پر طلبہ اور مہمانوں کے لیے کھانا تیار کیا جاتا تھا ۔
8 ) ورکشاپ : بڑی زاویوں میں جہاں طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا تھا وہاں ان کے لیے علیحدہ سے ورکشاپ بھی ہوتی تھی۔
9 ) اصطبل : زاویہ کے گھوڑوں اور دیگر کارآمد جانوروں کو رکھنے کے لیے زاویے میں ایک اسطبل بھی ہوتا تھا۔
ہر زاویہ کا ایک شیخ یا امیر ہوتا تھا ۔وہی قاضی اور منصف کے فرائض بھی انجام دیتا تھا دیگر ارکان اخوان کہلاتے تھے۔ ہر ایک اخوان پر لازم تھا کہ وہ ہفتہ میں ایک دن کے لیے علم پڑھے دوسرے دن زراعت اور کاشتکاری یا باغبانی کرے اور ایک دن جہاد کی عملی تربیت حاصل کرنے کے لیے وقف کرے۔ سنو سی تحریک کا ہر زاویہ اپنے آپ میں خود کفیل ہوتا تھا۔ اس طرح یہ زاویے فقط خانقاہیں نہ تھیں بلکہ تعلیمی، روحانی، ثقافتی اور اقتصادی مرکز بھی ہوتے تھے۔ ہر زاویہ میں کسب حلال پر خاص زور دیا جاتا تھا۔ساتھ ساتھ طلبہ اور اساتذہ کی تربیت کے لیے سنوسی جامعات اور مدارس میں ایک بہترین اور جامع نصاب تعلیم تیار کیا جاتا تھا اور تمام زاویوں کی درسگاہیں مرکزی زاویہ "جامعہ جغبوب" کے ساتھ منسلک تھیں اور جامعہ جغبوب اس زمانے میں "جامعہ اظہر" کے بعد عالم اسلام کی دوسری بڑی یونیورسٹی تھی۔
سنوسی تحریک میں خواتین کی تعلیم و تربیت پر بھی مساوی زور تھا اور زاویوں میں خواتین کی تعلیم کے لیے علیحدہ نظم ہوتا تھا، جہاں پر خواتین معلمات لڑکیوں کو تعلیم دیتیی اور ان کی تربیت کرتیں۔اس کے ساتھ ساتھ تعلیم بالغان کا الگ سے شعبہ ہوتا تھا جہاں پر پیر اور جمعہ کو شام کے وقت کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ جہاں قران مجید کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا سکھایا جاتا اور ضروری احکام و فرائض کی تعلیم دی جاتی تھی۔
چونکہ اس زمانے میں افریقہ میں غلامی کا رواج تھا ،سنوسی تحریک نے اس کا حل یہ نکالا کہ وسطی افریقہ سے غلام بچوں کو خرید لیتے ان کی تربیت کرتے جب وہ بالغ ہو جاتے تو ان کو اپنے ہی علاقوں میں دعوت و تبلیغ کے کام پر بھیجا جاتا تاکہ اشاعت اسلام کا کام دن بہ دن بڑھ سکے۔
سنوسی تحریک نے افریقہ میں دور رس اثرات مرتب کیے ۔اس کا کام بھی بڑا منظم تھا ۔سیاست اور مذہب کو اس نے ایک ساتھ جوڑ دیا ۔اپنے زاویوں میں صنعت و حرفت اور تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ مسلکی اختلاف سے اپنے پیر و کاروں کو دور رکھا اور مسلمانوں کے اندر وسیع المشربی اور روشن خیالی کو فروغ دینے کی کوشش کی ، تاکہ قران و سنت کی بنیاد پر ایک مثالی مسلم معاشرہ وجود میں آئے ، جو آگے چل کر دنیا کی جدید تعمیر کے لیے رہنما کا کام دے سکے۔
البتہ مختلف وجوہات کی وجہ سے سیاست میں اس کا زیادہ عمل دخل خصوصا لیبیا کے لیے مسلح جدوجہد آزادی کی تحریک نے اس کے دیگر اصلاحی اور دعوتی کاموں کو متاثر کیا اور بالاخر تحریک کا سیاسی زوال اس کے حتمی زوال کا سبب بن گیا ۔حالانکہ اپنے مقاصد کے اعتبار سے یہ ایک کامیاب تحریک تھی اور اس کے زوال سے امت کو بہت بڑا نقصان ہوا۔
حالسڈار ویریناگ
7006146071