Ad
اہم ترین

خود کشیاں ! اور جہلم پھٹ پڑا

✍️:. ش م احمد / سری نگر 


7006883587

  ۱۹؍جولائی سنیچر کو شمالی کشمیر کےبارہمولہ اور سوپور قصبوں میں دوالگ الگ واقعات میں خودکشی کے دو افسوس ناک واقعات رونما ہوئے۔ افسوس صد افسوس !

پہلا واقعہ آزاد گنج بارہمولہ میں پیش آیا جہاں ایک ۵۵؍سالہ شخص مسمی عبدالعزیز نجار نے نامعلوم وجوہ کی بناپر دریائے جہلم میں چھلانگ مار کر اپنی پیاری جان گنوادی۔  بتایاجاتا ہے کہ ا س دلدوز واقعہ کے کچھ ہی گھنٹوں بعد نورباغ سوپور کی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی نے بھی جہلم میں کود کر خود کشی  کرکے دنیا سے بد نما رخصت لے لی ۔اس بچی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر نے کا بزدلانہ کام کن وجوہات اور کن ناگفتہ بہ حالات کے دباؤ میں آکر کیا‘اس بارے میں اصل حقائق ابھی تک صیغہ ٔراز میں ہیں‘ ممکن ہے کہ پولیس تفتیش رازوں کا افشا کرے مگر سچ پوچھئے آج تک اکثر وبیش تر ایسی کہانیاں اَن کہی رہ جاتی ہیں ۔ عبدالعزیز نجار کی خودکشی کے اسباب وعلل بھی ابھی تک پردۂ اخفا میں ہیں ۔ بہر صورت  اطلاعات کے مطابق کم عمر بچی کی لاش جہلم کی گود سے کچھ ہی گھنٹوں میں بازیاب کی گئی۔ اس سے مرحومہ کے ستم رسیدہ لواحقین کی جان لیوا گھٹن کچھ تھم سی گئی گرچہ غم زدگی کا زخم اُنہیں عمر بھر جیتے جی مارتا رہے گا۔ 

 میرا یقین ہے کہ اگر جہلم کی زبان ہوتی تو یہ حیات دہندہ دیاہم پر برس کر بولتا : اے غافل ونادان و اہل کشمیر ! کیا آپ لوگوں نے مجھے خودکشی کا قبرستان یا شمشان گھاٹ سمجھا ہے کہ روز میرے اندر بے گور وکفن  چھپم جانےآتے ہو ؟ میرے شریر میں کوئی انسان یا جانو راتفاقی طور ڈوب جائے تومیں اس کی موت پر واویلا صد واویلاکرتا ہوں ‘ آنسو بہاتا ہوں ‘ماتم مناتا ہوں ‘ دُکھ اورافسوس کی ٹیسیں محسوس کرتا ہوں کیونکہ میراکام زندگی دینا ہے زندگی لینا نہیں مگر آہ جو ناسمجھ لوگ زندگی سے تنگ  یا عذابوں اور مشکلوں سے دامن بچانے کے لئے خود کشی یا صحیح لفظوں میں زندگی کی امانت سے خیانت کرنے کے لئے میری آغوش کی پناہ گاہ چن لیتے ہیں ‘ اُن کے انتخاب پر میرا کلیجہ پھٹ پڑتا ہے‘میں ان سے شدید ناراض ہوتا ہوں ‘ میراکام زندگی کے انمول تحفے کی رکھوالی کرنا ہے نہ کہ مایوسی وکم ہمتی میں بھٹکےہوؤں کو اپنی رگ ِ حیات سے بےوفائی میں مددگار بننا۔ امر واقع یہ ہے کہ میری موجیں ایسی غیر فطری ہلاکتوں کےہزارہا سانحات کی چشم دید گواہ ہیں‘ علی الخصوص نوے کی دہائی میں اس سرزمین پر وقوع پذیر بے شمار المیے میرے آبی وجود میں کانٹے کی طرح چبھتے رہے ‘ میں صدموں کے تواتر پر صرف کف ِ افسوس ملتا رہا‘ میرا درد آنسو بن کر میری آنکھوں سے بھی چھلکتا رہا مگر آہ اب میری آنکھوں کا سمندر بھی سُوکھ چکا ہے۔ اب پے درپے خود کشیوں کے بد صورت مناظر دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے ، مجھے خود سے بھی گھن آرہی ہے۔ کئی برس سے روز اُن کم نصیب لوگوں کو اپنے اندر نہ چاہتے ہوئے سمیٹتےجارہا ہوں جو خود کشی جیسے ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کرنےمیری موجیں چن لیتے ہیں ۔ حیف ہے کہ سری نگرمیں میرے اوپر جو سات پل لوگوں کو آرپار جانے میں رابطہ کار بنتے ہیں ‘ اُن کے اوپرسے بھی سینکڑوں لوگوں نے آج تک میرے اندر کود کر اپنی جان لے لی ‘ حدیہ کہ مہذب ومتمدن کہلانے والے اس دور میں مجبوراً ارباب ِ اقتدار کو خود کشیوں کے  بڑھتے ہوئے سلسلے کی حوصلہ شکنی کے لئے ان پلوں پر دوطرفہ اونچی فولادی جالی نصب کرنا پڑی تاکہ اپنی جان کے درپے لوگوں کو میرے اندر موت کا فرشتے پا نے کی تکلیف میں گواہ نہ بنوں۔ پھر بھی ناامیدیوں اور ناہموار حالاتِ زندگی میں گھرے ہوئے پست ہمت لوگ ہیں کہ بلا روک ٹوک اپنی زندگی کے خاتمے کے لئے کہیں نہ کہیں میری سبک رفتار موجوں کا ناجائز استعمال کئے جا رہے ہیں ۔ میں اللہ کا تحفہ ہوں ‘صدیوں سے کشمیر کے سینے پر فخر سے بہتا چلا آ رہا ہوں ‘ آگے بھی صدیوں تک بہتا رہوں گا ۔ دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ میں محض ایک دریا نہیں بلکہ ہر کشمیری  کی دل کی دھڑ کن ہوں ِ‘ ان کا ہمدم ِ دیرینہ اور بے لوث رفیق ہوں ۔ میرے دونوں کناروں پر آباد انسانی بستیاں قرنوں سے میرے زیر بارِ احسان ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلے گا کہ کبھی میں اپنی مدہم رفتار سے  ارضِ کشمیرکے لئے نوید ِ ِحیات بنا ‘ کبھی ان کی شامت ِاعمال سے سیل ِرواں بن کران پر بے دھڑک اپنا غصہ نکالتارہا۔ کیامیں نے ان کی بےلوث خدمت میں کبھی کوئی کسر اُٹھارکھی؟ نہیں مگرجدید دور کے آپ لوگ کتنے احسان فراموش ہیں کہ ڈل اور دیگر انعاماتِ الہٰیہ کی مانند میری بھی بے انتہا ناقدریاں کئے جارہے ہو ‘ پھر بھی میں نے لمحہ بھر کے لئے بھی تمہارا ساتھ نہ چھوڑا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے بنا آپ ایک پل بھی جی نہیں سکتے۔ بلاشبہ خود میں ایک ذرۂ بے نشان ہوں مگر میری صورت میں میری  زندگی اور میری سانسیں کشمیر پر قدرت کی مہر وکرم اور فیض رسانی کے عمدہ مظاہر ہیں۔ میں آپ کشمیریوں کا شاندارتہذیبی ورثہ ہوں ‘ تمہاری مذہبی رواداری کا گواہ ہوں کہ آج بھی میرے ہی کنارے آپ کی مسجدیں آباد ہیں ‘ خانقاہیں اور روضےواقع ہیں ‘مندر موجود ہیں ‘ قدیم زمانے کے تاریخی مقبرے ہیں ‘ آثار قدیمہ کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں ۔میں لوگوں کی شادی و غمی کا ہم قدم تھا اور آگے بھی ر ہوں گا ‘ میں آپ کے لئے اور آپ میرے لئے لاازم وملزوم ہیں‘ مگر افسوس کہ آپ کو کبھی ایک پل بھی غور وفکر کرنے کی توفیق نہیں ملتی کہ جو دریاآپ سب کے لئے زندگی کی بشارتیں لاتارہا‘ جوسب کی پیاس بجھاتا رہا ‘ سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتا رہا‘جو اُمنگوں کی کھیتیاں لہلہاتا رہا ‘ جوحیاتِ نو کی رعنائیوں سے اُمیدبہاراں کے چمن زار سیراب کر تا رہا ‘ آج لوگ آج اسی کی بانہوں سے خود کشی کرنے والے لوگوں کی لاشیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ میری اصل شناخت پر بد شگون دھبہ اور جگ ہنسائی کی دلیل ہے ۔  کیا یہ میرے لئے بدنامی کا باعث نہیں کہ اپنے مسائل ِ زندگی سے فرار پانے والے بزدل لوگ بضد ہیں کہ مجھے اپنی آخری آرام گاہ بنائیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ زندگی دینے والے کی امانت سے خیانت  کرنا کتنا پڑا گناہ جرم اور پاپ ہے ؟ یہ لوگ میرا دل مسلسل توڑے جارہےہیں‘ میرا مذاق اُڑائے جارہے ہیں ۔میں جانتاہوں کہ بارہمولہ اور سوپور میں خود کشی کے تازہ واقعات سے کشمیر کے تمام حساس لوگوں کے دل پر چھریاں چلیں ‘ من اُداس ہوئے ‘ سوچیں افسردہ ہوگئیں‘ قلب وجگر میں سوگ اورماتم کے نشتر پیوست ہوئے ‘ انسانیت کے ناطے یہ تیر ونشتر ان کے انفرادی ا وراجتماعی ضمیر کے اندر تلاطم برپا کر گئے۔ ٹھیک ہے کہ ان کا ضمیرابھی زندہ ہے‘ خود کشیوں کے بدنام زماں تسلسل نے ان کے دن کاچین اور راتوں کاآرام چھینا ہوا ہے ‘ یہ ذی حس لوگ سوچ سوچ کر متفکر و پریشان ہورہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہاتو کشمیر کے حال ا ورمستقبل کاکیاہوگا۔ میں کہتاہوں کہ ان کے ذہن میں یہ سوال بھی کلبلا نا چاہیے کہ اگر ایک کم سن بچی کے کچے دماغ میں شعو ر وبالیدگی کا اتنا فقدان تھا کہ حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے اپنی جان لینے کا جلدبازی میں فیصلہ لے کراس کے نتائج وعواقب کو نظر انداز کیا مگر ایک پختہ عمر شخص آخر زندگی کے کن ناقابلِ برداشت عذابوں اور بے قابوطوفانوں اور زندگی کی کن کھٹنائیوں اور تنگنائیوں سے گزررہا تھا کہ اُس نے بھی بے رحم موت کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سونے میں اپنی عافیت سمجھی ؟ وہ کیونکر اس درجہ اپنا عقلی توزان کھوبیٹھا کہ ایک بزدلانہ فیصلہ لے کر زندگی سےاپنےسانسوں کی ڈور کاٹنے پر آمادہ ہوا۔ اگر یہ کڑوے سوالات کشمیریوں کے تمام ہمدردوں کوبے چین کر کے نہ چھوڑیں تو خودکشیوں کی یہ آگ کبھی بھی کہیں بھی پہنچ سکتی ہے اور خواہ مخواہ میری بے قصور موجوں کوان کے قصور اور گناہ کا چشم دید گواہ بننا ہوگا ۔ یاد رکھئے یہ تیکھے سوالات اہل کشمیر کے واسطے بحث برائے بحث کی ذہنی عیاشی سے لطف نہیں اُٹھانے کے لئے نہیں ہونے چاہیں بلکہ ان سے زندگی کی پیچیدگیوں سے مایوس ہونے والوں کے لئے نئی اُمید‘ نیا جوش‘ اہنی ہمت اور جرأتِ رندانہ کے بنددروازے کھل جانےچا ہیں۔ میں نے بھی آپ لوگوں کی طرح دیکھا کہ سوشل میڈیا کے ایک ذمہ دار حصے نے بجاطوران غم ناک واقعات پر نظر ونقد کا باب کھول دیا تاکہ کشمیر میں آئے روز خودکشی جیسے انتہائی سنگین مجرمانہ حرکات کے پس ِ پردہ اسباب جاننے پر آزادنہ گفتگو اور تبادلہ خیال بھی ہو اور ان کا کماحقہ سدباب بھی ہو ۔ شکرہے کہ سوشل میڈیا کایہ حصہ اس اہم مسئلے پر اپنے سنجیدہ تبصروں او رتاثرات سے لوگوں کوشر سے خیر کی طرف بلا نے کافریضہ انجام دئے جا رہا ہے‘ مایوس لوگوں کو متنبہ بھی کررہاہے اور فہمائش بھی کہ مردانگی یہ ہے کہ زندگی سے پیار کرنا سیکھو‘ زندگی کی اُلجھنوں اورتیکھے مسئلوں سےفرارحاصل کرنے کے لئےموت کو گلے لگانا سراسر نامردی ہے ۔ اس موضوع پر میں آج یعنی ۲۰؍جولائی کی وہ اُمید افزاخبر تمہاری نظروں کے سامنےلانا چاہوں گا۔اس چشم کشا خبر نے دنیا کے سامنے خراب سے خراب تر حالات میں بھی ہمت نہ ہارنے کی ایک اچھوتی مثال قائم کردی۔خبر یہ ہے کہ سعودی شاہی خاندان کاایک شہزادہ الولید بن خالد بن طلال السعود ، جو 15 سال کی عمر سے کوما میں تھا اور 36 سال کی عمر میں اس کا کل انتقال ہو گیا۔ مرحوم کےوالد کاغیرمتزلزل ایمان تھا کہ اللہ اس کے شہزادے کی زندگی واپس لوٹادے گا مگر شہزادہ جسے’’ سلیپنگ پرنس ‘‘یعنی سویا ہوا شہزادہ کے نام سے پکاراجاتاتھا‘ بیس سال تک کوما میں رہنے کے بعد آج ۲۰؍جولائی کو دنیا سے بالآخررخصت ہو ا۔ وہ بے شک اتنی مدتِ دراز تک موت وحیات کی کشمکش میں رہا مگر ا س کے والد شہزادہ طلال نے نہ اُمید کا دامن چھوڑاتھا ‘نہ زندگی دینے اللہ پر اس کایہ بھروسہ کبھی ٹوٹا کہ وہ اس کو نہیں بچاسکتا۔ آخر کارہوا وہی جو خالق ِ کائنات کی منشا تھی ۔ اس کی نماز جنازہ اتوار 20 جولائی کو ریاض کی امام ترکی بن عبداللہ جامع مسجد میں عصر نماز کے بعد ادا کی گئی جو اس بات کا اعلان ہے کہ آخر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ پرنس الولید کا سال 2005 میں حادثہ ہو گیا تھا۔ اس وقت پرنس 15 سال کا تھا ‘ وہ رائل ملٹری اکیڈمی میں زیرتعلیم تھا کہ کار حادثے میں اس کے سر میں شدید چوٹ لگی ‘ اس گہرے زخم کے سبب وہ کوما میں چلا گیا۔ شہزادے کے علاج ومعالجہ کے لیے امریکہ اور اسپین سے ماہر ڈاکٹر بلائے گئے لیکن اُسے ایک پل بھی ہوش نہ آیا‘ اگرچہ کبھی کبھی شہزادے کی انگلیاں ہلتی دیکھی جاتیں‘ جسم میں بھی کبھی ہلچل پائی تھی تو ’’لاتحزن ان اللہ معنا‘‘ ( غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے) پر ایمان رکھنے والوں کی اُمیدوں میں جان پڑجاتی، لیکن شہزادے کا دماغ  کبھی رِی کورہی نہ ہوا ۔ شہزادہ گزشتہ 20 سال سے وینٹی لیٹر پر تھا۔ اگرچہ ڈاکٹروں نے شہزادے کو بے ہوش مریض ڈکلیئر کر کے شاہی کنبے سے وینٹی لیٹر سسٹم ہٹانے کی اپیل کی تھی، لیکن کنبے نے شہزادہ الولید کے ہوش میں آنے کی اُمید کبھی نہ چھوڑی ۔ اب شہزادہ کے انتقال پر شاہی کنبے نے اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کر ہی لیا۔ یہ ہوتی ہے زندگی کے مسائل ‘ عذابوں اور چنوتیوں سے آخری سانس تک لڑنے کی ایمانی قوت۔ اسے ہم اُمیدفردا کی نعمت بھی کہہ سکتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اللہ کی عظمت اور اپنی نعمت مقاومت کی معجزنمائی پر کسی بھی حال میں اپنا یقین وایمان نہیں چھوڑنا چاہیے ‘ بھلے ہی حالاتِ زندگی آپ کے لئے کتنے ہی پیچیدہ ‘ دشواراور ناسازگار لگتےہوں‘ جینے کے لئے لڑنا اپنااصل الاصول بنانے کبھی ناکام و نامراد نہیں رہتے۔

 تُف ہے سوشل میڈیا کے اُ س غیر سنجیدہ حصہ پر جو مسائلِ زندگی کے بارے میں اَناپ شناپ بکنے ‘بے سروپا فسانہ طرازیاں کرنے اور بے تکی باتیں پھیلانے میں مشغول ہو کر ایسے دل شکن حالات کادھارا موڑنے کے برعکس لغویات وفضولیات پھیلانے میں لگا رہتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کشمیر میں بے روزگاری کا آتش فشاں ہے ، منشیات کی جان لیوا وبا ہے ‘ بے حیائی اور دھوکہ دہی بام ِ عروج پر ہے ‘ دیکھا دیکھی کے مہلک امراض اورایسے ہی دیگر پھن پھیلائے مسائل کے اژدھے خود کشی کی منفی نفسیات اور غلط ر جحان کو تقویت دیتے ہیں ۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جرائم اور ہمچو قسم کے غیرقانونی وغیراخلاقی حرکتیں  وقوع پذیر روز کا رونابننا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ لہٰذا وقفے وقفے سے خودکشی جیسی رُوح فرسا اور صدمہ خیز وارداتیں ہمارے سماج کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر جاتے ہیں ‘ مگر صدافسوس ہمارا ردعمل بس اتنا ساہوتاہے کہ تین ایک دن تک یہ چیزیں ہماری گپ شپ میں موضوعِ بحث رہتی ہیں ‘پھر انہیں فراموشی کے بستے میں ہم سب گم گشتہ راہ ہو جاتے ہیں ‘یہاں تک کہ کوئی نیا صدمہ ہمیں گہری نیند سے نہ جگائے ۔ اگر ہم ایسی مصیبتوں سے مستقلاً نجات چاہتے ہیں تو ہم سب پر یہ ناقابل ِ التوا انسانی فریضہ  عائد ہوتاہے کہ اپنے اپنے دایرۂ اثر میں لوگوں کو زندگی کی قدر وقیمت سمجھائیں ، عالی ہمتی اور صبر وشکر کے اوصاف کو فروغ دیں ، زندگی سے پیار اور غیر فطری موت کی راہ منتخب کرنے سے نفرت ومغائرت کا فہم اپنے رگ وریشے میں اُتاریں‘ اُن لوگوں کو بے لوث ہوکر اپنائیں جو دین دُکھی ہوں ،بے سہار اہاہوں‘ مسائل اورعذابوں کے گرداب میں کراہ رہے ہوں‘ ِ تنہائی کی وجہ سے ڈپریشن یعنی ذہنی‘ اعصابی اور جذباتی تناؤ کے شکار ہوں۔ ان میں جینے کی اُمید جگائیں‘ انہیں بتائیں کہ زندگی کا سفر کٹھن ضرور ہے مگر منزل بہت ساری محبتوں اور راحتوں کی سوغات لئے ہماری منتظر ہے‘ ہمیں اللہ پر مکمل بھروسے کے ساتھ ساتھ صرف محنت ‘کوشش اور مصابرت کا جیب خرچہ اپنے ساتھ رکھتے ہوئے زندگی کے چلینجوں سے دودوہاتھ کرنے چاہیے۔ ہم کسی بھی صورت مایوسیوں اور کم حوصلگیوں کو اپنی زندگی میں جگہ نہ دیں اور اس ذات والاصفات پر پورایقین وایقان رکھیں کہ وہی ہے جو ہرشب کا اختتام آخر کار نئی سحر پر کرتا ہی ہے ۔ ہمیں زندگی کے امتحانوں سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ یہی دنیا کا دستور ہے جو ازل سے ابد تک رہےگا ۔اس لئے غم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ میری موجوں کی مانند اپنا سفر بلاناغہ جاری رکھنا  چاہیے   ؎

 زندگی سے پیار کرنا سیکھ لے

 جس کو جینا ہو وہ سہنا سیکھ لے



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!