بین الاقوامی
ٹرمپ صاحب ! آئیے نوبیل پرائز پائیے

✍️: ش م احمد / سری نگر 7006883587 امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پل میں ماشہ پل میں تولہ ہونے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ جو بات آج وہ خم ٹھونک کر ‘تیکھے تیوروں کے ساتھ اور کرخت لہجے میں کرتے ہیں‘ یقین مانئے کل اگر ان کا موڈ بدل گیا تو نرم گفتگو اورملائم لفظوں میں یُوٹرن بھی لے سکتے ہیں ۔ ا یران میں برگزیدہ رُوحانی پیشوا اور ولایت الامر آیت اللہ علی خامنائی کے مجوزہ قتل کی دھمکیوں سے لے کروہاں رژیم چینج کرنے اور ملک کا پُرامن جوہری پروگرام تہ ِ تیغ کرنے کی گیڈر بھبکیوں نے آگ میں گھی ڈالنے کا گناہ ِ کبیر موصوف نے اپنے سرلیا مگر اس کے بعد ٹرمپ کا اُن کا یوٹرن بھی ملاحظہ کیجئے کہ اسرائیل اور ایران کے بیچ دس روزکشت وخون کے بعد اچانک صدر امریکہ نےجنگ بندی کا اعلان کرکےدنیا کو حیران وششدر کیا۔ قبل ا زیں صرف دوایک دن پہلے انہوں نے بہ نفس ِنفیس میدان ِ جنگ میں کو د تے ہوئے تہران کے اہم نیوکلیئر سائٹس پر بمباری کا حکم بھی جاری کیاتھا ۔ ایک ہیبت ناک جنگی طیارہ ایران کی فضاؤں میں قہر برسا نے کے لئے روانہ کر نے کا حکم انہی کی اجازت سے مشروط تھا ۔ اس جنگی اقدام سے بظاہر لگ یہ رہاتھا کہ ایرانی مزاحمت اس کے سامنے ڈھیر ہوجائے گی مگر ہو ا کے بالکل اس کے برعکس ۔ تہلکہ آمیزامریکی جنگی کارروائی کے بعد ایران پہلے سے زیادہ فیصلہ کن مزاحمتی جذبے کے ساتھ کرو یامرو کی پوزیشن لئے ساتھ میدان میں غیر معمولی انداز میں ڈَٹ گیا۔ یہ معاملہ ایک تہران کے لئےہی کیا‘ پوری دنیا کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بنا۔ جنگ اگر مزیدطول پکڑتی تو دنیا کی کوئی خیر نہ تھی کیونکہ جنگ وجدل میں امریکہ کی براہ ِراست شرکت لفظاًومعناً چین اور روس کے لئے ایک چیلنج تھا‘ وہ بھی کہاں نیچے بیٹھنے والے تھے ‘ اُنہیں واشنگٹن کے پیداکردہ جنگی جنون سے نبردآزما ہونےلنگر لنگوٹے کس کر جنگ میں اُترنے پر بالفعل مجبور ہونا ہی ہوناتھا۔یوں امریکہ کی ایران میں تاریخ کا یہ پہلاڈائرکٹ ایکشن تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔ حسب ِ توقع امریکی کارروائی سے نیتن یاہو کی باچھیں کھل گئیں‘ اُ س کے ٹوٹے حوصلوں کو تازہ توانائی کا ایندھن مل گئی اور وہ اعلاناً غرا ئے کہ امریکہ کا یہ کام ( نیوکلیئرفیسیلٹیزپر نمائشی بمباری) مشرق وسطیٰ کا اتہاس بدل دے گا‘ مگر اُن کی یہ خوشیاں کچھ ہی لمحوں میں تحلیل ہوئیں کیونکہ تہران نے نہ صرف تل ابیب پر کئ زوردار یورشیں کرکے نیتن ہاہو کو ناکوں چنے چبوائے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکن فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی کھلی دھمکی دے ڈالی ۔ اگلے ہی دن اس نےعملاً قطر میں امریکی فوجی بیس پر میزائلی داغ کر ا س سلسلے کی بسمہ اللہ تک کردی ۔ یہ غیر متوقع ردعمل دیکھ کر ٹرمپ کو بھڑوں کی چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی حماقت کا احساس بہت جلدہوا۔ زمینی سطح پر بگڑتے حالات کی تیکھی نہج اور اس کے دُوررس اثرات تاڑکر ٹرمپ کو آٹے دال کے بھاؤ معلوم ہوئے ‘ انہوں فوری طور ڈمیج کنٹرول کے طور تہران اور تل ابیب کے درمیان ۲۴؍جون کو اچانک سیئز فائر کا سنسنی خیز اعلان داغا ‘ ابتدائی طور دونوں ملکوں میں غیرمشروط جنگ بندی قبولنے میں پس وپیش رہا مگر شکرہے دونوں طرف جوں توںجنگ رُگ گئی ۔ نیتن یاہو کے اعصاب ا س سےپھر ایک بار ڈھیلے پرگئے مگر ایران کی سیاسی قیادت نے فتح کا جشن منانے میں ذرا بھی دیرنہ کی۔ عین جنگ کے نقطہ ٔ عروج پر صدر ٹرمپ کے تازہ یوٹرن کے پیچھے کن مصلحتوں اور مجبوریوں کی کارفرمائی رہی ‘ ان سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے امن ِ عالم کے مفاد میں آتش ِ محاربت کی لپٹیں بجھا کر امن کی طرف پلٹنا ایک کارآمد پہل ہے ۔ دنیا اس پہل کی سراہنا کرتی ہے ۔ حالیہ ہند پاک محاربے کی آتشیں صورت حال کے کلائمکس پر بھی صدر ٹرمپ نے الل ٹپ سئیز فائر کا اعلان کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا ۔ اب تک وہ پندرہ بار مختلف مواقع اور منچوں پر اس کا کریڈٹ خود کو دے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ٹرمپ پہلے جنگ کی چنگاریوں کو سلگا کرانہیں کیوں شعلہ ٔجوالہ میں بدلتے ہیں‘ پھر کیا وجہ ہے کہ ان پر خود ہی پانی ڈالنے لگتے ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو یہ شوق چرایاہے کہ قصرِصدارت چھوڑنے سے پہلے وہ کسی طرح نوبیل پیس پرائز پائیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دنیا میں طاقت ور ترین واحدانسان مانے جانے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دلِ ناداں میں کافی دن سے یہ بچگانہ آرزو مچل رہی ہے۔ہم ا سے امریکن عالم پناہ کی جاگتی آنکھوں کا سہانا سپنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس حسین خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کر نے کے لئے انہیں ٹھوس بنیادوں پر کوئی امن پسندانہ کام کر نا ہوگا‘ عالم ِ انسانیت کو امن وآشتی کا گہوارہ بنانا ہوگا ‘ امن پرور اور انسان دوستانہ جمہوری پالیسیوں میں اپنی توانائیاں کھپا دینی ہوں گی ۔اس کے برعکس اگر وہ نوبیل پرائز پانے کے انمول خواب کی عملی مخالفت میں تیروتفنگ لئے اسرائیل کے شانہ بشانہ میدان ہائےجنگ کی گویا سپہ سالاری کر یں تو ایسے میں ان کا خواب ایک خواب ِ پریشاں بن کر کیوں نہ رہ جائے۔ سوال یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت ٹرمپ خود ہی برق رفتاری سے اگر جنگ کو عرب کے ریگزاروں کے بعد عجم کے گلزاروں تک پھیلانے میں اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک رہے ہوں‘ جب غزہ کے بعد ایک نئے خون آشام جنگ کی ہسٹری تہران میں خون خرابے کی سیاہی سے نیتن یاہو سے مل کر لکھتےر ہیں،‘ حرب وضرب کی خوف ناک چنگاریو ں کا جغرافیہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی ایکٹیو پلاننگ کرنے سے مزے لے رہے ہوں ‘ اسرائیل کو اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ کی کمک بھیجنے میں ایک منٹ کا وقفہ بھی نہ دینے کے روا دار ہوں ‘ جنگی جنوں کی قہرآلودہ آگ کے چلتے مزائلوں اور ڈرؤنوں کی مدد سے غزہ کو ہیروشیما اور ناگاساکی سے بدتر کھنڈرات اور بے چراغ قبرستانوں میں بدل دینے میں لمحہ بھر کے لئے بھی پشیمانی محسو س نہ کرتے ہوں ‘ نیتن یاہو کی عوام میں غیر مقبول حکومت کو غزہ کے دُکھ اور تکلیفیں بڑھانے میں اپنے شانے پیش کر نے اور تہران سے پنگا لینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں‘ مسلسل ٹیر ف بڑھانےسے عالمی اقتصادیات کے لئے جنگ آزما رہتےہوں تو بھلا امن کا نوبیل پرائز پانے کا اُن کاایک اچھا اورمثبت خواب دیکھنا کس منطق اور فلسفے کی رُوسے باجواز ٹھہر سکتا ہے؟ صدر امریکہ کو بے شک یہ حق حاصل ہے کہ عالمی عزت وآبرو پانے کا اپنا خواب پوراہوتا ہوا دیکھیں مگر کیا اس کے لئے صرف خواب چاہیے کسی ٹھوس اور قابل ِداد کام کی کوئی ضرورت نہیں ؟ ایسے عالمی تمغات پانے کے لئے ہٹلر نہیں بلکہ مہاتما گاندھی ‘ کنگ مارٹن لوتھر اور نیلسن منڈیلا ‘ مدرٹریسا اور مولانا عبدالستار ایدھی جیسا ایثار وقربانیوں کا مجسمہ بننا پڑتا ہے۔ اور افسوس کیا آپ کو اس اعلیٰ وبالا مقام کو پانے کے لئے اپنےاُ س وردی پوش پاکستانی جی حضوری جنرل عاصم منیر کے علاوہ کوئی اور ہاتھ نہ لگا؟ ان کے لئے اللہ سے پہلے امریکہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ایسوں کی ملازمت‘ وردی اور پانچ ستارے ہمیشہ امریکی صدور کے ابروئے چشم کے رہین ِمنت ہوتے ہیں مگر آپ نے حد ہی کردی‘ کیا وجہ رہی کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کی گرماہٹ کے عین وقت اُنہیں اپنی سرکاری باورچی خانے کا مہمان بنانا پڑا‘ حالانکہ واشنگٹن اپنے سمدھیوں تک فری لنچ دینے کا قائل نہیں ‘ اس لئے ناقدین دال میں کچھ کالا ضرورد یکھتے ہیں۔ پتہ نہیں ظہرانے سے قبل جنرل کو خطے میں امریکی اور اسرائیلی مشترکہ ایجنڈے عملانے کے کیا کیا آدیش دئے ‘ وہ آگے پتہ چلے گامگر جنرل نے جاتے ہوئےقصیدہ گوئیانہ طرز میں یہ ڈکار چھو ڑی کہ آپ کو نوبیل پیس پرائز ملنا چاہیے۔ اگر آپ کو نوبیل انعام کے لئے عاصم منیر اور اُن کے سیاسی آقا اسحاق ڈار جیسوں کی سفارشیں اور ستائشیں چاہیں تو عالمی سطح کے اس معتبر انعام کی کیا کوئی ساکھ‘ وقعت ا ور قدروقیمت رہتی ہے ؟ اس کی اخلاقی معنویت کاکوئی بھرم رہتا ہے ؟ کیا عاصم منیر کی بھینگی آنکھ کواتنا بھی نظر نہ آیا کہ غزہ کے بارے میں جیو بائیڈن سے زیادہ زہرناک آپ کی پالیسی رہی ہے ؟ کیا جنرل تجاہل ِ عارفانہ کی بیماری سے جھوج رہے ہیں کہ غزہ اور ایران کی تباہی کا کوئی ادنیٰ سا احساس وادراک بھی نہیں ؟ اس وردی پوش کے علاوہ دنیا کا کوئی ایک ایسا سنجیدہ فکر انسان دوست سیاست دان بتائیے جو غزہ ‘ لبنان اور یمن کے بعد ایران میں جنگ کے شعلے بھڑکانے کےبعدآپ کے حق میں اس انٹرنیشنل انعام کی سفارش کر سکتا ہے ؟ شاید نیتن یاہو بھی لمحۂ ٔموجود میں آپ کے حق میں ایسی کوئی احمقانہ سفارش کرنااپنی کسر ِ شان سمجھیں گے۔ آپ بھولیں تو بھولیں مگر دنیا جانتی ہے کہ صدارتی الیکشن سے قبل آپ نے سوبار سوباردنیا سے جنگ وجارحیت کی سیاست لپیٹنے ‘ تجارت‘امن پروری ‘ اتحاد‘ ترقی اور خیرخواہی کی شاہراہیں کھولنے کی چکنی چپڑی باتیں کی تھیں‘انہی حسین وعدوں کے سہارے ووٹ بھی بٹورے ‘ ووٹروں کے سامنے آپ نے دنیا میں شاخ ِ زیتون لئےبے منزل کمزور کبوتری کو منزل دینے کا بھروسہ دلایا تھا‘ امن کی پیام برکبوتری سے پیار کا دکھاوا بھی کیا‘ مگر جب آپ واشنگٹن میں قصر ِ ابیض کے دوبارہ مکین ہوئے تواس کبوتری کی شامتیں بڑھانے ‘ اس پر آفتیں ڈھانے اور ا س پر متواتر جھپٹنے والے مجرم آدم خوروں کا ہاتھ ایک پل بھی نہ روکا۔ اپنے حال مست ٹرمپ صاحب کو کون سمجھائے کہ بقول علامہ ؎ ہوصداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر ِ خاکی میں جاں پیدا کرے یارلوگ کہتے ہیں کہ نوبیل پرائز پانے کا کھلی آنکھوں کا سہانا سپنا آج کل ٹرمپ کے خیالستان کی آنکھوں کے سامنے ایک لاثانی منظر اُنہیں یوں دکھاتاہے جیسے اوسلو ناروے میں نوبیل پرائز کمیٹی کا انٹرنیشنل پنڈال سجا ہو‘ عالمی میڈیا نوبیل پرائز پانے والے خوش نصیب پر واری ہو رہا ہو ‘ کچھا کھچ بھرے شاہی ہال میں چنیدہ ہستیوں کے روبرو اینکر پرسن مائک سنبھال کر حاضرین سے مخاطب ہو : خوش آمدید‘ لیڈیز اینڈ جنٹل مین ! آپ سب کی توجہ چاہوں گا ۔ نوبیل پیس پرائز کمیٹی اوسلواس پنڈال سے فخر وانبساط کے ساتھ اعلان کرر ہی ہے کہ نوبیل انعام برائے امن بابت سال ۲۰۲۵ کسی اور کے نہیں بلکہ امریکی صدر ڈونالد ٹرمپ جی کے سر جاتا ہے ۔ مسٹر ٹرمپ! آپ کو ڈھیر ساری مبارک بادیں اور شبھ کامنائیں۔ آج کی شام آپ کے نام‘ تالیوں کی فلک شگاف گونج میں پنڈال پر تشریف لائیے‘ آپ کو دنیا میں امن وآشتی کا پھریرا لہرانے کے اعتراف میں نوبیل عالمی امن انعام پانےکے لئے پورے اعزاز وتعظیم کے ساتھ شہ نشین پر بصد احترام جلوہ افروز ہونے کے لئے مدعو کیاجاتا ہے۔ آئیے جہاں پناہ ! قدم بڑھایئے ‘ نوبیل پیس پرائز کی رونقیں بڑھائیے اور ہوسکے تو دنیا کو امن کی جنت اور تجارت کے بیوپار منڈل میں بدلنے کی اپنی جاندارا ورشاندار پالیسی کی تھوڑی تشریح وتوضیح کریں۔ دنیا آپ کی زبانی کچھ اچھا میٹھا سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہے ۔ آیئے حضور‘ تالیاں! اعلان سنتے ہی شاہی ہال میں بہت دیر تک زوردار تالیاں اور سیٹیاں بجتی ہیں ۔ گرم جوشانہ تالیوں کے شور میں تمام لوگ اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوکر امن ِ عالم کے دلداہ ٹرمپ کی عزت افزائی میں تالیاں پیٹ کر ان کو خوب داد دیتے ہیں۔ عالمی امن کا صلہ پانے پر ٹرمپ کا پروردہ عالمی گودی میڈیا اُنہیں دل کھول کر شاباشی دیتا ہے مگر افسوس اسے نہ غزہ کی تباہیاں اور بربادیاں کہیں نظر آ تی ہیں اور نہ تہران پر جنگ تھوپنے اور مزائیلوں کی بارشیں کر کےاس ملک کے خرمن ِ امن کو آگ لگانے کی نئی تازہ کہانی کہیں دِکھتی ہیں ۔ امریکی صدر بڑے چاؤ سے حاضرین کی پہلی صف سے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ‘ اپنی دائیں مٹھی بھینچ کر ہوا میں لہراتے ہیں‘ جسم کونیم رقاصانہ انداز میں مداحوں کے سٹینڈنگ اویشن کا جواب دیتے ہیں جیسے ورلڈ پیس کا عالمی کپ تنہا جیت لیا ہو ‘ مین آف دی میچ اور مین آف دی سیر ئز ہونے کا بلاشرکت غیرےخطاب پایا ہو ۔ اسی خواب میں جی رہے ٹرمپ دل سے چاہتے ہیں کہ تاریخ اُن کو کچھ کرائے بغیر امن کا کامیاب مبلغ اور شانتی کا مناد سمجھ کربارک اوبامہ کی طرح امن کے نوبیل پرائز کا حق دار مان لے ۔ کو ئی حرج نہیں اگرٹرمپ کو یہ اہم انعام اس عنوان سے بخوشی دیا جائے کہ بہ حیثیت صدر امریکہ وہ دنیا کے خطہ ہائے مخاصمت میں جنگ وجدل کی آگ خلوص ِ دل سے بجھاتے ہیں ‘ امن وشانتی کے چمن زاروں کو جابجا سینچتے سجاتے ہیں ‘ قوموں کی عداوتیں اور کدورتیں دوستیوں سے بدل دیتے ہیں ‘ اپنے ابراہم اکارڈ کی لاج رکھتے ہوئے فلسطین میں دوریاستی فارمولے کو عملی طور نافذکرواتے ہیں۔ لیکن یہ سارا کچھ کئے بغیر ہی اگر وہ خیالی امن وامان قائم کرنے کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں تو کیا کہئے۔ امن کی بیخ کنی کرنےیا جنگ وجدل کی حوصلہ افزائی کر نےکے باوجود کیا وہ معاصر تاریخ کی زبانی وہ صریح جھوٹ سننا پسند کرسکتے ہیں : آیئے ٹرمپ جی ! قیاسی امن ِ عالم کے قیام کی خیالی دستارِ فضیلت اپنے مبارک ہاتھوں اپنے گول مٹول سنہری بالوں والے سر باندھئے ! نہیں حضور ایسا سوچنا ذہن کی تنگ دامنی اور مونگیری لال کا حسین سپنا ہی ہوسکتاہے ‘ جب کہ عملی دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کے پاس کام کرنے کے لئے ابھی چار سال بچے ہیں ‘ غزہ میں اسرائیلی بدترین حملے رکوایئے ‘ اس پٹی کی تمام تکلیفیں ختم کروائیں‘ وہاں امن اور ترقی کی بہاریں لانے کا عزم باندھیں‘ یوکرین اور روس میں امن لایئے ‘ ایران اور اسرائیل میں مستقل جنگ بندی کرایئے اور جہاں بھی کہیں بدامنی کی بدبوئیں پھیلی ہوں‘ وہاں امن کی بہاریں خوشبوئیں پھیلائیے۔ ایسا کیا تو آپ نہ صرف نوبیل پیس پرائز کے حقیقی حق دار قرا ر پائیں گے بلکہ اہل ِ دنیا کے دلوں پرراج تاج کرنے والے ہردل عزیزامریکی حکمران کے طور تاریخ عالم کے صحیفے میں ہمیشہ کے لئے زندہ وپائندہ رہیں گے۔ بولئے صداقت کے لئے جینے کےواسطے اپنے پیکر خاکی میں ان اصولوں کی جان ڈالنے کا سودا منظور ہے ؟