مسلم دنیا
ایران و اسرائیل کے مابین جنگ بندی مفتی تقی عثمانی کی رائے پر میرا تبصرہ

اگر ہم اس تناظر میں دیگر اسلامی ممالک کی حالت دیکھیں تو وہ بدترین سفارتی، اخلاقی اور انسانی ناکامی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ رفح کراسنگ بند رہی، انسانی امداد کو روکا گیا،غزہ کے لاکھوں بچوں، عورتوں اور بے قصور شہریوں کا قتلِ عام جاری رہااور مسلم دنیا خاموش!
ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ محدود جنگی تصادم نے مغربی ایشیاء میں طاقت کے توازن اور عالمِ اسلام کی سیاسی و اخلاقی زبوں حالی کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔ اسرائیلی حملے اور ایرانی ردِ عمل کے بعد، جب یکایک جنگ بندی کی خبریں آئیں تو کچھ سنجیدہ حلقوں نے فوری طور پر یہ سوال اٹھایا کہ کیا ایران کو موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئےاس سیزفائر کو غزہ میں جنگ بندی کی شرط سے مشروط نہیں کرنا چاہیے تھا؟
اسی تناظر میں ایک جاندار، حکیمانہ اور نہایت مدلل رائے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتهم کی طرف سے سامنے آئی، جنہوں نے فرمایا کہ ایران کو جنگ بندی اسی صورت میں قبول کرنی چاہیے تھی جب اس میں غزہ سیزفائر کی شرط بھی شامل ہوتی۔ اُن کے اس بیان پر بعض حلقوں کی طرف سے اعتراضات بھی سامنے آئے ۔ کچھ نے اسے ایران پر بلاوجہ تنقید قرار دیا، کچھ نے اسے غیر حقیقی مطالبہ کہا، اور بعض نے اسے دیگر مسلم ممالک کی خاموشی سے صرفِ نظر کا نتیجہ گردانا۔
تاہم اگر اس رائے کو جذبات، مسلکی یا سیاسی تعصبات سے ہٹ کر دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان نہ تو کسی الزام کا آئینہ دار معلوم ہوتاہے، اور نہ ہی کسی سیاسی کوتاہ اندیشی یا دباؤ کا مظہر، بلکہ یہ حسنِ ظن، دینی غیرت، اور سیاسی وفکری بصیرت پر مبنی ایک تحریک و توقع کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب کی رائے: اعتماد اور اخلاقی وابستگی کا اظہار
جب مفتی تقی عثمانی صاحب جیسی سیاسی بصیرت رکھنے والی علمی و روحانی شخصیت کسی ریاست یا ادارے سے کسی بلند اخلاقی اقدام کی توقع رکھتی ہے، تو اسے اس ریاست یا ادارے پر تنقید نہیں بلکہ اس پر اعتماد کا اظہار سمجھ لینا چاہیے ۔ اسی سمجھ کے پیش نظر ہمارے خیال میں مفتی صاحب ایران سے غزہ کے لیے شرط رکھنے کا مطالبہ اسی لیے کرتے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ ایران ابھی تک ان معدودے چند مسلم ممالک میں شامل ہے جنہوں نے فلسطین کی مزاحمت کی حمایت میں ابھی تک منفرد کردار ادا کیا ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب کی یہ رائے محض ایک سیاسی تدبیر کی طرف اشارہ نہیں کرتی بلکہ یہ اس خطے میں نمایاں حیثیت رکھنے والی ایک خود مختار ریاست سے ایک اخلاقی مطالبہ بھی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والے ایک با ضمیر ملک سے ایک اعلیٰ اقدام کی استدعا ہے۔ اس طرح کا مطالبہ کسی اور مسلم ملک سے نہ کرنااس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ مفتی صاحب ان ممالک کے حکمرانوں سے کسی بھی خیر کی توقع نہیں رکھتے۔ اور یہ سکوت بذاتِ خود ان کے تئیں ایک گہری تنقید بھی ہے۔
سوال صرف ایران سے کیوں؟
یہ سوال کہ ایران سے ہی کیوں مطالبہ کیا جا رہا ہے اور باقی اسلامی ممالک سے کیوں نہیں؟ ایک سطح پر تو بظاہر معقول معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کا جواب نہایت سادہ اور عادلانہ ہے:
یعنی جو طاقت رکھتا ہو، اسی سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہم دہشتگردی اور بے گناہ انسانوں کے قتل کو ہر صورت میں حرام و ناجائز اور ایک گھناؤنا جرم مانتے ہیں۔ تاہم اسرائیل کی دہائیوں پر محیط سفاکی اور ریاستی سطح کی دہشتگردی کے پس منظر میں ایران اس وقت واحد ملک ہے جس نے کھل کر حماس اور فلسطینی مزاحمت کی اخلاقی و بعض عملی سطح پر حمایت کی ہے۔ ترکیہ، مصر، سعودی عرب، امارات، پاکستان جیسے ممالک یا تو خاموش تماشائی ہیں یا ظالمانہ و مجرمانہ عالمی نظام کا غیر اعلانیہ حصہ بن چکے ہیں۔ ان سے مطالبہ کرنا دانشمندانہ نہیں، کیونکہ مطالبہ صرف اسی سے کیا جاتا ہے جس میں کچھ خیر کی رمق باقی ہو۔
یہی مفتی تقی عثمانی کی نظرِ بصیرت ہے، کہ وہ خاموش تماشائیوں کو مخاطب بنانا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، اور جسے وہ مزاحمت کی علامت سمجھتے ہیں،اسی سے اعلیٰ اقدام کی امید رکھتے ہیں۔
جنگ بندی کے اس موقع پر شرط کیوں ضروری تھی؟
جنگ میں جب دشمن پسپا ہو، سیزفائر کی درخواست خود کرےبھلے ہی اسے بڑے شاطرانہ طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرے، اور جنگ کا پلڑا ایران کے حق میں جھکتا دکھائی دے، تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب عسکری واخلاقی برتری کو سیاسی قوت میں ڈھالنے کا موقع ہوتا ہے۔ اگر ایران اس مرحلے پر کہتا کہ ہم سیزفائر قبول کریں گے، لیکن غزہ میں فوری جنگ بندی اور رفح کراسنگ کی بحالی شرط ہے تو یہ نہ صرف فلسطین کے حق میں بڑی سفارتی کامیابی ہوتی بلکہ ایران کی اخلاقی پوزیشن کو عالمی سطح پر مزید بلند کرتی۔
ہمارے نزدیک یہی مفتی صاحب کی بات کا حاصل ہے کہ ایران کو ایسے موقعے پر اپنےعمل سے غزہ کے ساتھ وفاداری ثابت کرنا چاہیے تھی، نہ کہ خاموشی سے فقط اپنے مفادات کو دیکھ کر پیچھے ہٹ جانا۔
کیا یہ تنقید ہے یا تحریک؟
مفتی صاحب کی بات کو تنقید سمجھنا درحقیقت ان کے قول کا غلط مفہوم اخذ کرنا ہے۔ اصولی طور پر جب کوئی مفکر کسی رائے میں مخلصانہ اصلاح اور تحریکِ خیر کی روح لے کر بات کرے، تو اسے الزام یا دباؤ سے تعبیر کرنا نہ صرف علمی خیانت ہے بلکہ توجیہ القول بما لا يرضى به قائله (یعنی قول کو وہ مفہوم دینا جو اس کے قائل کی نیت نہیں تھی) کی خطرناک مثال ہے۔
مفتی صاحب نے ایران سے جو تقاضا کیا، وہ دراصل ایران پر اعتماد کا اعلان ہے۔ اُن کے نزدیک ایران ہی وہ واحد فریق ہے جس سے کچھ امید باقی ہے، اور جس سے وہ چاہتے تھے کہ اُمت کی نمائندگی کرے ، چاہے علامتی سطح پر ہی سہی۔
عالمِ اسلام کی خاموشی: ایک اجتماعی ناکامی
اگر ہم اس تناظر میں دیگر اسلامی ممالک کی حالت دیکھیں تو وہ بدترین سفارتی، اخلاقی اور انسانی ناکامی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ رفح کراسنگ بند رہی، انسانی امداد کو روکا گیا،غزہ کے لاکھوں بچوں، عورتوں اور بے قصور شہریوں کا قتلِ عام جاری رہااور مسلم دنیا خاموش!
ترکیہ، مصر، امارات، پاکستان ، کسی نے نہ تو عسکری اقدام کیا، نہ مؤثر سفارتی دباؤ، اور نہ ہی کوئی نمایاں موقف اختیار کیا۔ ایسے میں اگر مفتی صاحب فقط ایران سے مخاطب ہیں، تو یہ دراصل دوسروں کی مکمل بے عملی پر مہذب طمانچہ ہے۔
نتیجہ: ایک داعی، ایک مفکر، ایک عالم کا درد
مفتی تقی عثمانی صاحب کی رائے ایک ایسے فقیہِ اُمت کی رائے ہے جسے نہ صرف دین کی گہرائی کا شعور حاصل ہے بلکہ اُمت کے حال، اس کی شکست و ریخت، اور اس کی نشاۃ ثانیہ کے ممکنہ امکانات کا بھی ادراک ہے۔ ان کی بات کو مخالفت کے بجائے تحریک، تنبیہ اور تربیت سمجھنا چاہیے۔
وہ نہ ایران کے مخالف ہیں، نہ ایران کی پوزیشن کو مجرم ٹھہرا رہے ہیں۔ وہ بس باقی دنیا کی خاموشی میں ایک باقی بچی ہوئی آواز سے کچھ اور مانگ رہے ہیں ۔ شاید کچھ اور ہمت، شاید کچھ اور بلند حوصلگی، شاید صلح نامے میں ایک اور آخری سطر۔