Ad
مسلم دنیا

غزہ : وائےجان بلب بچے!

 ✍️:. ش  م  احمد  سری نگر


7006883587

زمیں چھوڑوچلے آؤ خدا کی میزبانی میں

  فرشتے منتظر تیرے بہشت ِآسمانی میں

  نہ کھانے کویہاں دانہ ‘نہ پینے کو یہاں پانی  

  زمین ِ کربلا جیسا غزہ ہے قہرمانی میں

 ہلاکت کا تعاقب ہے تباہی کاتسلسل ہے   

  یہاں سانسوں پہ پابندی تمہاری زندگانی میں

  تمہیں گودی جھلائےکون تمہیں لوری سنائے کون

نہ آنچل ہے نہ سا یہ ہے حیات ِ بےزبانی میں

  تیرا گھر ہے بنا ملبہ تیرے بھائی بہن شہدا  

 بچا تیرا کوئی اپنا نہ ہے دنیائے فانی میں

  نہ فکر آدمیت ہے نہ غیرت ہے مسلماں میں

تُو مقتل میں وہ محلوں میں یہی صدمہ کہانی میں

 اے نو مولودان ِغزہ! اُجڑے دیار کے عارضی مکینو‘ دشت ِویران کے طائر ان ِبے آشیاں‘ موت وحیات کی کشمکش میں معلق ننھے فرشتو‘ آتش وآہن میں پھنسے بے زباں روحو‘ نہیں معلوم کب تمہاری اَدھ کھلی آنکھیں ہمیشہ کےلئے بے نور ہوجائیں‘ کب تمہاری اُکھڑی سانسیں حلق میں اَٹک کر ساتھ چھوڑ جائیں‘ کب تمہارے ہاتھ پیر   ساکت وصامت ہوجائیں‘ کب مشت ِغبار بن کر تم سرائے فانی سے اُڑ کر عالم ِبرزخ پہنچوگے ‘ کب اللہ کے حضور شہادت کے خلعت سے نوازے جاؤگے۔ کچھ بھی معلوم نہیں ۔ ہاں اتنا کچھ جانتا ہوں کہ اگر غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن فضائی حملے مسلسل جاری رہے‘ یہاں انتقاماًبنیادی سامانِ زیست کی بندش مزیدجاری رہے ‘ پانی کی عدم فراہمی کا ظالمانہ غیرانسانی حربہ بلاناغہ آزمایا جائے‘ عالم ِانسانیت جنگ بندی کروائے نہ اشیائے خوردونوش اور راحتی سامان کی ترسیل پر جابرانہ ممانعت ختم کروائے تو یقیناًدنیوی زندگی کی بندشوں سے آزاد ہوکر تم موت کی وادی میں قدم رنجہ ہوکر رہو گے ۔ میرا گمان وخیال ہے کہ جنگی حالات کی موجودہ ہیبت ناک روش بدستور جاری رہی تو ہیروشیما اور ناگاساکی سے زیادہ دہشت انگیز کھنڈروں میں تمہیں جنم دینے والی تمہاری مظلوم ومقہور مائیں عنقریب اناللہ وانا لیہ راجعون کی الوداعی لوری سناکر تمہیں رخصت کریں گی۔ تمہاری مائیں بلاشبہ فلسطین کی بہادر بیٹیاں اور غزہ کی غیور ہستیاں ہیں ‘ پھر بھی ہرماں اول و آخر ماں ہوتی ہے‘یعنی ایک نرم وملائم وجود ِ زن‘ انسانی جذبات کا مشک بار گلدستہ ‘ پھول جیسےنازک دل کی مالکن ‘ زخم ہائے جگرکی پرورش اپنےاشکوں آہوں سے کر نے کی عادی نسوانی تخلیق۔ تم اُ نہی سخت جانوں کے لخت ِجگر ہو‘ اُنہی کی کل کائنات ہو‘ اُن کے جذبوں کی زبان ہو ‘ اُن کے خوابوں کے گھروندے ہو ‘ اُن کی ہنسی خوشی کے ضامن ہو‘ اُنہی کے مستقبل کی پرچھائیاں ہو ‘ اُن کی اشک بار آنکھوں کی پُتلیاں ہو ۔ وہ تمہاری دائمی جدائی کا غم اپنے آنسوؤں کے سیلاب‘غم زدہ دلوں اور سرد آہوں کی آندھی سے شاید ہی سہلا پائیں گی۔ رہے تمہارے بے بس باپ‘ ماناوہ اپناغم کا بندھ ٹوٹنے نہ دیتے‘ اندر ہی اندر مجروح جذبات کی بھٹی میں پگھل کر وہ تمہارے بے حس وحرکت بدن کولباس ِکفن اوڑھیں گے اور ٹوٹی کمر اور بوجھل قدموں شہر خموشاں میں تمہیں پردۂ خاک میں دفن کر یں گے۔ دوپل پر مشتمل تمہاری یہ حزنیہ کہانی جب اپنے اختتام کو پہنچے گی تو اقوام متحدہ غزہ کے مرنے والے ہزاروں نونہالوں کے سوگ میں ڈوبے کاغذی اعداد وشمار جاری کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے گااور دکھلائے گا کہ عالمی ادارہ انجمن ِ مجلس اقوام کی مانند عضوئے معطل بن کر بدامنی وخون ریزی سے چرمراتی دنیا میں صرف ایک تماشہ بین ہے ۔ اور بس ۔

ذرا اس جانب بھی تفکر و تعقل کے دریچے کھول کردیکھنے کا تکلف کیجئے۔ 

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس ہیں ۔ یہ ایک عالمی عہدہ پر فائز بڑے صاحب ہیں مگر فلسطینی عوام کو اسرائیلی جارحیت سے عملی طور بچانے کے بجائے ان کاکردار اب گویا ایک نیوز رپورٹر میں سمٹ چکاہے ۔ انہوں نےحال ہی تکلیف دہ خبر دنیا کو سنائی مگر کیا زمینی سطح پر کوئی معجزہ نمائی ہوئی کہ اہل غزہ کی اجتماعی تعذیب و سزارتی بھر کم ہوئی ہو؟ کہتے ہیں کہ غزہ میں حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے بعد اب لوگوں کی بھوک سے بھی موت ہونے لگی ہے۔ واہ! جیسے پہلی بار غزہ میں اسرائیلی حملوں کی زد میں محصور لوگ بھکمری سے دوچار ہوئے ہوں ۔ مزید فرمایا کہ اس وقت لوگ سب سے خراب وقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی یہ بھی روایت ہے کہ اسرائیل نے لمبے وقت کی پابندی کے بعد جب غزہ کے لیے راحتی اشیاء والے ٹرکوں کو جانے کی اجازت دی تو درجنوں ٹرک راستے میں ہی لوٹ لئے گئے۔ بھوک اور پیاس کے شکار لوگ راحتی اشیاء والے ٹرکوں پر ٹوٹ پڑے۔ بروزن ِ شعر انہوں نے اسرائیل کویہ مشورہ  دیا کوئی حکم نہیں کہ تل ابیب کو کم سے کم راحتی اشیاء پر روک نہیں لگانی چاہیے‘ یہ ظلم کی انتہا ہے جس کا سامنا غزہ کے لوگ کر رہے ہیں۔اُ دھر حال ہی میں اسرائیل نے 400 ٹرکوں کو  غزہ جانے کی اجازت دی تھی حالانکہ ان میں سے 115 ہی غزہ پہنچ پائے۔ اسرائیل غزہ میں قتل عام تیز کر کے زوردار تباہی مچانے لگا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ میں کند ذہن ہوں ‘ اتنی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا کہ اس خبر کے بحر میں کودکر اس کی تہ سےکوئی گہر اوپر اُچھال لوں۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ عالمی ادارے کی جانب سے غزہ کے لئے کسی متوازی راحتی ایکشن پلان کے بغیر موصوف کا یہ بیان ایک بے لنگر جہاز اور لوازمات کی خانہ پُری کے سوا کچھ اور نہیں ۔ کم از کم اس سے مجھے یواین سیکرٹری جنرل کے عہدہ ٔ جلیلہ پر فائز اعلیٰ شخصیت اسرائیل کے مقابلے میں ایک بے دست وپا انسان سے زیادہ اور کچھ نہیں لگتے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی گزشتہ جمعہ کو جانکاری دی کہ جنوبی غزہ میں بھوک پیاس کے مارے لوگوں نے 15 ٹرک لوٹ لئے تاکہ بھوکے پیٹوں کے دہکتےجہنم سر کرسکیں کیونکہ لوگ زبردست فاقہ کشی کے شکار ہیں اور بھوکے پیٹ مررہے ہیں ‘خاص کر بچے اور نومولود بھکمری کے چنگل میں دم توڑ ے جا رہے ہیں ۔ غزہ واسیوں کو بھروسہ ہی نہیں کہ راحتی اشیا کے مزید ٹرک کبھی اُن کے یہاں نمودار ہوں گے۔ یہ بے خانماں و بے سہارا لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ‘ ان کے گلے خشک ‘ زبانیں خشک اور دل مضطرب و بے چین ہیں۔ ایک فلسطینی کا یہ کہنا کہ میری کم سن بیٹی صبح سے ہی رو رو کربریڈ مانگ رہی ہے لیکن میرے پاس اسے دینے کو کچھ بھی نہیں ہے‘ میں کیا کروں‘ اس سارے المیے کا لب لباب ہے۔دوسری طرف اسرائیلی فضائیہ نے گزشتہ جمعہ کو غزہ پٹی میں 75 سے بھی زائد ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ اسرائیلی حفاظتی دستے (آئی ڈی ایف) کا دعویٰ ہے کہ اس کی فضائیہ نے جنگجوؤں کے 75 سے زائد ٹھکانوں کو تباہ کر دیااور دہشت گردوں، راکٹ لانچروں، فوجی احاطوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کو نشانہ بنا کر انہیں تہس نہس کیا۔ غزہ سول ڈیفنس ایجنسی کے افسر محمد المغائر نے بھی اعلاناً کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں کم سے کم 71 لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اس کے علاوہ کئی لوگ لاپتہ بھی بتائے جاتے ہیں۔ دل کو چھلنی اور جگر کو پاش پاش کرنے والی ا یسی بری خبروں کی بدترین تکرار ۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ سے تادم ِ تحریر روز کا قصہ بنا ہوا ہے ‘ ایسے میں عالمی ادارہ صرف کاغذی بیانات کی بھرمار کرنے کی روایت کا اعادہ کرتاجائے تو کیاغزہ کی زمینی حقیقت قیامت کے آخری گھڑی تک کسی صورت بدل سکتی ہے ؟ سمجھ میں نہیں آتا عالمی عدالت ِانصاف کادل اس ظالمانہ اجتماعی تعذیب پر کیوں پسیج نہیں جاتا ‘ اس کی جبین پر اسرائیل کی سفاکیوں کے خلاف رنج وکلفت کے بل کیوں نہیں پڑتے ؟ یواین انسانی حقوق کمیشن جینواکی نیندیں پل بھر بھی حرام کیوں نہ ہوتیں ؟ تکریم ِانسانیت کے زبانی کلامی دعوے دار ایک بار بھی یہاں کی حالت ِ زار پرچشم گریاں قلب بریاں کیوں نہ ہوتے ؟  جمہوریت کی دہائی دینے والوں کا صبر وقرار ایک لحظہ کے لئے بھی متزلزل کیوں نہیں ہو تا؟ کیا کہئے گا !!! اور امریکی صدر ڈونالد ٹرمپ جن کادل غزہ واسیوں کے لئے کٹھور اوربازو کہنیوں تک خون سے لت پت ہیں ‘وہ اس پٹی کی تباہی کے لئے اسرائیل کو جدید ہتھیاروں کی کھیپ درکھیپ بھیج کرجنگ کی آتش  مزیدبھڑکا رہے ہیں مگر جب اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں مشرق وسطیٰ کا انتخاب کرکے غزہ کے دروازے پر واقع سعودی عرب ‘ قطراور متحدہ عرب امارات کا دور ہ کرتے ہیں تو اُن کی راہ میں تمام شاہان ِ عرب دیدودل فرش ِ راہ کئے ہوئے ہشابشاش انداز میں ان کا استقبال مسیحا اور مسحن کی طرح کرتے ہیں جیسے غزہ نام کا ان کا کوئی ہمسایہ ِ ہم قوم ہم مذہب اور ہم زبان وہم ثقافت خطہ ٔ زمین کہیں موجود ہی نہیں ‘ نہ کہیں اسرائیل جنگ کے جملہ مسلمہ اصولوں اور عالمی قوانین کی بدترین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو کر انسانیت کا منہ چڑا رہاہے ۔ تینوں عرب ملکوں نے اہل ِغزہ کی نمک پاشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر ساتھ ہی ٹرمپ کی نظر عنایت حاصل کرنے اور خوشنودی پا نے کی دوڑ میں کئی ٹریلین ڈالر والے جنگی اسلحہ کے سودے صدر امریکہ سے جھکی گردنوں کے ساتھ طے کر نے میں ایک دوسرے پر سبقت لی ۔ اس کے لئےاپنے شاہی خزانے امریکن ہتھیارساز صنعت کی شادابی پر نچھاور کرنےمیں ذرہ برابرتاخیر نہ کی تاکہ انکل سام کو آج اہل ِ غزہ کل عالم ِ عرب کے حال اور مستقبل پر امریکہ کی شہنشایت کا سکہ جمانے کی سہولت میں کوئی کمی نہ رہے ۔ اس سے بڑھ کر اہل ِ فلسطین اور عالم ِعرب کی بدنصیبی کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟   

 یہ ایک طویل جملہ معترضہ تھا ۔میں نےشروع میں غزہ میں جنمے نوزائیدہ بچوں کے پیچھے فرشتۂ موت کے مسلسل تعاقب کی جوبات  چھیڑی‘ اسی موضوع پر قلم کو پھرسے موڑتاہوں ۔ اے غزہ کے جان بلب پھول چہرہ معصومو!تمہاری عزیز جانوں پر اتنی بن آئی ہے کہ قلم ان مصیبتوں کا شمار نہیں کرسکتا جن سے تمہارا سابقہ پڑاہے۔ اے ننھے فرشتو! تمہارے ستم رسیدہ حالات کا فسانہ سن کر پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہورہے ہیں ‘ رنج و ماتم کے عالم میں زمین کا کلیجہ پھٹ رہاہے ‘ آسمان کادل دہل رہا ہے‘ انسانیت کا سر شرم سے جھک رہا ہے ‘ انصاف پسندوں ‘ امن کے پرستاروں ‘ بلا تفریق مذہب وملت انسان دوستی کےخوشبوؤں سے مہکنے والے عالموں مفکروں معلموں دانش وروں ادیبوں شاعروں اور فلاحِ انسانیت کے لئے دل ِ بےتاب اور فکر لاثانی رکھنے والوں کے دل میں ہوک سی اُٹھ رہی ہے ‘ اُن کے ضمیر کے خلوت خانے تمہارے درد وغم سے تلملا رہے ہیں‘ اُن کی زبانیں ظلم وتشدد کے خلاف سر اپا احتجاج ہیں،ان کی سوچیں انسانی بھلائی کے دفاع میں ستیزہ کار ہیں ‘ سب سے بڑھ کراُن کا قلبی اضطراب زمانے کے ہٹلر ثانی نیتن یاہو اور اُن کے دست وبازور بنے دجالی قوتوں کو کہیں بزبانِ حال اور کہیں بزبانِ قال بلا خوفِ لومتہ لائم کہہ رہے ہیں : غزہ میں ظلم وجارحیت تشدد سے باز آ جاؤ‘ماراماری خون ریزی فوراً سے پیش تربند کروکیونکہ تمہارے آزمودہ غیر انسانی سلسلے نہ اسرائیل کے حق میں جیت کی نوید بن سکتےہیں ‘نہ عالمی امن کے مفاد میں کسی صبحِ نو کی خوش خبری بن سکتے ہیں‘ نہ ٹرمپ کے نام نہاد ابراہم اکارڈ کی کامیابی اور دوریاستی حل کاراستہ ہموار کر سکتے ہیں ۔۔۔ وائے غزہ کے مظلوم نوزائیدہ بچو! کب تمہاری روح تن ِ ناتواں کے قفس سے کوچ کرجائے ‘ کب تم بے گور وکفن لاش بن کر عالم ِ انسانیت کی بہیمیت ‘ بے حسی اور بدبختی کا زندہ نوحہ بنے جنت میں اپنے جیسے ہزاروں فلسطینی بچوں کے ساتھ گلکاریوں میں مصروف ہوں گے‘ کب حور وغلماں کی صحبت میں تم اپنی معصومانہ مسکراہٹوں کی جگمگاہٹ سے جنت کو مزید جاذبِ نظر بناؤگے ۔۔۔ جب بھی ایسا ہو ‘ غزہ کے دشت ِ ویراں میں مزید سناٹا چھا جائے گا ‘ غم کی بارشیں ہوں گی ‘اورتمہارے زمین ِ بے آئین سے ہزاروں میل دُور تمہاری الم انگیز سرگزشت اور جگرسوز حال احوال پرمیرا قلم اشک اشک رہے گا‘ دل پریشان ہوگا‘ جگر پاش پاش ہوگا ۔ اللہ حافظ اے ننھے فرشتو!



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!