Ad
افسانہ

ستار چچا کا بیوپاری :... افسانہ

✍️:. عبدالرشید سرشار 


ستار چچا کی عمر اتنی زیادہ   نہیں تھی مگر وہ جواں سال بھی نہیں تھا ہاں اس کی  عادات کچھ عجیب غریب سی تھیں۔جھوٹا موٹا پہننا ،سادگی کے ساتھ رہنا، ڈینگیں نہ مارنا اور صفائی کے ساتھ کام کرنا اس کی عادت تھی۔وہ پر مشقت کام ہرگز نہیں کرتا تھا ۔ 

ستار چچا نے  مکان بنانے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی، بلکہ دہائیوں قبل اپنے مرحوم والد کے ہاتھوں تعمیر شدہ بوسیدہ جھونپڑے میں ہی بودو باش رکھتا تھا۔لکڑی کے تختے ،کچی اینٹیں اور چھ فٹ کی نیچی دیواریں بس یہی اس کی ساری کائنات تھی۔

مگر باتیں وہ بڑی کار آمد کیا کرتا تھا۔

چچا ستار آپ کے گھر والے کہاں ہیں؟ ایک دفعہ میں نے پوچھ ہی لیا۔

برخوردار کون سے گھر والے! 

مجھے سخت تعجب ہوا کیونکہ ستار چچا کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی۔

دیکھو برخوردار شادی تو میری ضرور ہوئی ، چلو ایک سنت  ادا ہوئی مگر زندگی کا جوڑا مجھے نصیب نہ ہوا!

یوں کہیے آپ کو پسند کی بیوی نہ ملی،میں نے ہنستے ہنستے لقمہ دیا۔

کبھی کبھی میں ستار چچا کی کوٹھری میں جھانکتا تو اسے  روٹی پکاتے، چائے بناتے اور دیگر ایسے کاموں میں مصروف پاتا جو بظاہر عورتوں کے کرنے کے کام ہیں۔

چچا آپ گاؤں میں کیوں گھوم پھر رہے ہیں اور یہ آپ کے ساتھ کون ہے؟

بیٹا کچھ مت پوچھو یہ ہمارے شہر کا سب سے بڑا بیوپاری ہے۔ ان کےپاس بڑا سا محل ہے، نوکر چاکر ہیں ،گاڑیاں ہیں اور یہ گاؤں دیہات گھوم پھر کر اخروٹ، بادام،لہسن،شہد،مکئی راجماش اور پہاڑی پیاز خریدتے ہیں۔

میں بڑا حیران ہوا! اتنا بڑا بیوپاری چچا ستار کے ساتھ۔

اس بیوپاری کا نام میں بھول گیا مگر صاف دھلا ہوا فیرن پہنے، سر پر اونی ٹوپی اوڑھے پاؤں میں چمڑے کے میخوں والے جوتے  کہ چلتے چلتے ٹھک ٹھک کی آوازیں آتی تھیں۔ بغل میں دو پلڑوں والا ترازو دبائے۔ ستار چچا کے ہاتھ میں دو تین بوریاں تھیں اور وہ گھر گھر جا کر یہ ساری چیزیں تلاش کرتے، بھاؤتاؤ کرتے اور سیدھے سادے گاؤں والوں سے لہسن،مکی،شہد، راجماش اور جنگلی پیاز پانچ کلو قیمت میں سوا چھ کلو خریدتے تھے۔

دن بھر کے تھکے ہارے رات کو چچا ستار کی کوٹھری میں آرام کرتے،دیسی مرغیوں کے انڈوں سے چچا ستار اپنے بیوپاری کی خدمت کرتے،مکی کی  گرم گرم روٹیاں اور تلخ دیسی نمکین چائے اسے پلا تے ،دو تین اونی چادروں سے اس کا اوڑھنا بچھونا کرتے۔

   ماسٹر جی ایک ترک میں کتنے کلو ہوتے ہیں؟

اسکول پہنچ کر میں نے ماسٹر جی سے پوچھ ہی لیا کیونکہ چچا ستار کا بیوپاری بوا خدیجہ سے راجماش کے پانچ کلو کے بدلے سوا چھ کلو اینٹھ چکا تھا!

کیوں احمق تو چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے اور تجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک "ترک" میں پانچ کلو ہوتے ہیں۔

ماسٹر جی نے میری بات کا برا منایا،حالانکہ میں نے غلط بات تھوڑی کہی تھی۔سارے گاؤں میں چچا ستار کا بیوپاری ایسا ہی کرتا تھا۔

       چچا ستار کیا تو اپنے بیو پاری کے کاروبار میں شریک ہے؟

احمق وہ تو بہت بڑا بیوپاری ہے، اس کے پاس موٹر کار ہے، محل ہے، نوکر چاکر ہیں، میں تو ایک سیدھا سادہ غریب آدمی ہوں۔۔۔۔۔

چچا ستار نے آہیں بھرتے ہوئے جواب دیا۔

چچا ستار تو ایک نامی گرامی بیوپاری کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس کے پاس عالی شان مکان ہے موٹر کار ہے نوکر چاکر ہیں مگر تو مکان کیوں نہیں بناتا ہے؟

برخوردار مکان بنانے کے لیے پیسہ چاہیے!

 میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مکان کیسے بناؤں اینٹیں کہاں سے لاؤں؟

چچا ستار نے بے بسی کے ساتھ آہیں بھرتے ہوئے جواب دیا۔

چچا ستار شہر کے بیوپاری کے ساتھ سالوں سال گاؤں دیہات میں گھومتا پھرتا بغل میں دو پلڑے کا ترازو دبائے ، سوا چھ کلو کی چیزیں پانچ کلو کے بدلے خریدتا اور سیدھے سادے غریب اور جاہل مرد عورتوں کو اور بھی بیوقوف بناتا جبکہ چچا ستار اپنی موروثی کٹیا میں بالکل پرانی حالت میں زندگی گزارتا رہا۔

وہی جھوٹے موٹے کپڑے۔معمولی بارش آتی تو چچا ستار اپنی کٹیا کے لکڑی کے تختے سیدھے کرتے، جہاں سے پانی ٹپکتا وہاں مٹی کے برتن رکھتے، چولہا جلاتے اور  سر کے اوپر چادر ڈال کر لمبی تان سوجاتے۔

چچا ستار کا بیوپاری اب کوئی اجنبی نہیں رہا تھا۔ گاؤں کا بچہ بچہ اس سے مانوس تھا۔وہ جب بھی شہر سے آتا اپنے ساتھ مٹر دانوں کی جسامت کی شیرینی لاتا، بچوں اور بوڑھوں میں تقسیم کرتا اور بغل میں دو پلڑوں والا ترازو دبا کر دیہات کے چکر لگاتا۔رات گئے بچہ بچہ اپنی ماں اور اپنے باپ سے کہتا کہ آج چچا ستار کا بیوپاری آیا تھا ہمیں شیرینی کھلا کر چلا گیا!

کتنا اچھا آدمی ہے چچا ستار کا بیوپاری! 

گاؤں میں جب کسی کو کوئی چیز بیچنی ہوتی تو دوڑا دوڑا چچا ستار کے پاس چلا جاتا اور چچا ستار بھاگم بھاگ شہر جا کر اپنے بیوپاری کو ساتھ لاتا۔ وہ کڑ کڑ کرتے دس دس روپے کے نوٹ اپنی پوٹلی سے نکالتا اور وہ چیز ستار کے حوالے کرتا۔ایسے موقعوں پر بھاؤ تاؤ نہیں کیا جاتا، بیوپاری کے من میں جو مناسب لگتا وہی ریٹ لگتا۔

گاؤں میں شادی بیاہ ہوتی تو شہر کا بیوپاری ضرور آجاتا وہ خاص مہمان تصور کیا جاتا کیونکہ شہر سے آکر وہ گاؤں والوں کی ضرورتیں پوری کرتا انہیں روپیہ پیسہ دیتا وقت پر ان کے کام آتا۔

چچا ستار کا بیوپاری  گاؤں کےبچہ بچہ کو جانتا تھا۔

       میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو بدقسمتی سے مارکس شیٹ میں میرا نام غلط تلفظ کے ساتھ اندراج ہوا۔ماسٹر جی نے کہا کہ اسے ابھی درست کرو اور شہر چلے جاؤ۔ میں شہر پہلی بار جا رہا تھا نہ کوئی جان نہ پہچان ہاں چچا ستار میرے ساتھ چلےکیونکہ وہ بار بار شہر آتا جاتا تھا۔رات کو ہم دونوں اپنے بیوپاری کے پاس ٹھہرے۔چچا ستار نے مجھے اپنے شہری بیوپاری کا سارا محل، نوکر چاکر اور باغات دکھائے ۔واقعی بیوپاری بہت بڑا آدمی تھا۔اور چچا ستار سچ ہی کہہ رہا تھا کہ اس کا بیوپاری شہر کا سب سے بڑا ادمی ہے۔

محل سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا جھونپڑا نظر آیا میں اسے دیکھتے ہی حیران رہ گیا کیونکہ وہ چچا ستار کی جھونپڑی کا بالکل عکس تھا۔جب میں نے چچا ستار سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا البتہ ایک ہمسایہ نے یہ انکشاف کیا کہ چچا ستار کی دوستی سے قبل شہر کے بیوپاری کے پاس یہی جھونپڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالسیڈار ویریناگ

7006146071



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!