مضامین
ایک خواب ! پُرامن دنیا مخلص لوگ ٍ

7006883587
مارٹن لوتھ کنگ جونئیر( امریکہ کے ایک نامور سیاہ فام عیسائی مبلغ‘ شہری حقوق کے سرکردہ محافظ اور نسل پرستی کے شدید مخالف قائد ) نے ۲۸؍اگست ۱۹۶۳کو لنکن میموریل واشنگٹن ڈی سی کے وسیع وعریض میدان میں تقریباً ڈھائی لاکھ ہم خیال سول رائٹس کارکنوں کے مجمع میں ایک تاریخ ساز خطاب کیا ‘ یہ خطبہ’’ آئی ہیو اے ڈریم ‘‘( I have a dream) ) کے عنوان سے تاریخِ عالم کے جریدے میں سنہری حروف سے رقم ہے اور یہ امریکہ کے یادگار خطابات میں سرفہرست مانا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر نے اپنی معرکتہ الارا تقریر میں سیاہ فام امریکن شہریوں کی محرومیاں اور مظلومیت گنائیں اور پھر یکایک اپنی لکھی ہوئی تقریر کےمتن سے ہٹ کردل کو چھونے والے جذبات اور گرمیٔ گفتار سے ’’ میرا ایک خواب ہے‘‘ حسین جملے کی متاثرکن تکرار کی یہ سن کر محفل کا وہ سماں باندھ گیا ‘ سامعین سردُھنتے رہے بلکہ آج بھی سن لوگ کر عش عش کرتے ہیں ۔وقائع نگاروں نےان زریں لمحات کی ایک ایک جنبش کو اپنے قلم اور کیمروں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا تاکہ آنے والی صدیاں اور نسلیں بھول نہ جائیں کہ جس مارٹن لوتھر کی آواز کو گاندھی جی کی مانند گولیوں کی دندناہٹ میں خاموش کیا گیا ‘ ان کی آواز دنیا کے رواں رواں میں رچ بسی ہے کیونکہ یہ خوب صورت اور دلکش آواز صداقت کی آوز ہے‘ آدمیت کی آواز ہے ‘ توقیرِ انسانیت کی آواز ہے ‘ اور موجودہ جنگ زدہ بدصوت دنیا میں یہ آواز قیام ِ امن کااذنِ عام ہے۔اس آواز کی عالمگیر روشنی کو وقت کے اندھیارےکبھی مدہم نہیں کرسکتے ‘ اس آواز کی سچائی جھوٹ کےاندھیاروں میں چھپ نہیں سکتی ‘ اس کی کشش وتاثیرکبھی ماند نہیں پڑسکتی۔ مارٹن لوتھر نے اس خواب کی تشریح کرتے ہوئے دل میں اُترنے والے جو لب ولہجہ اختیارکیا‘ اس نے پورے جلسے میں جوش وجنون کی بجلی دوڑادی اور آج بھی اس کی گونج سے کمروز لوگ حوصلہ پاتے ہیں اور ٹوٹےہوئے دلوں ہمت کی دھڑکنیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جملے محض لفظوں کا مجموعہ نہیں تھے جن کی یاد وقت کی دھول میں بے چہرہ ہو بلکہ ان سے ایسی نئی دنیا کی توانا نیو ڈالی گئی جو آنے والے لوگوں میں بنی نوع انسان کے لئے پیغامِ زیست ثابت ہوئے‘ جو حقوقِ انسانی کو تحفظ دئے گئے‘ جوتابانیٔ جمہوریت کے اینٹ گارے بنے ایک ایسا جنت نما عالم کا خواب دے گئے جہاں جمہوری قدروں کا بول بالا ہو ‘ جہاں گورے اور کالے کا بھید بھاؤ نہ ہو‘ جہاں امن عامہ اور عدل ِ بے تاخیر کا سسٹم قائم ہو ‘ جہاں اُخوت وبھائی چارے کا چراغاں ہو ‘ جہاں مفاہمت اور مصالحت کی پراوئیاں چلیں ‘ جہاں نسل پرستی کا شائبہ تک نہ ہو ‘ جہاں غریب اور امیر سبھی متعدل حقوق اور واجب اختیارات کی رسی سے یکساں طور بندھے ہوں‘ جہاں کمزور جمہوریت کے سائے میں پنپ جائیں اور طاقت ور انسانی قدروں کے پاسباں ہوں ۔ ایسی خوش گوار دنیا انسانیت کی دائمی اور انتہائی ناگزیر ضرورت تھی ہے اور رہے گی۔
اونچےخوابوں کی باغبانی کرنا ہر معقول فرد بشرکا فطری شغل اور آرزؤں کی کھیتی باڑی ہر زندہ قوم کا شعار ہوتا ہے ۔ اگر انفرادی سطح خواب مر جائیں یا اجتماعی سطح پر آرزوئیں دم توڑ یں تو زندگی اپنی ساری معنویت کھوجاتی ہے اور زندہ رہنے کی انسانی دوڑ دھوپ فقط ایک حیوانی عمل بن کر رہ جاتی ہے۔ بھلے ہی کسی فرد یا قوم کے اونچے خواب تشنۂ تعبیر رہیں ‘آرزوئیں عمل کا جامہ پہننے سے محروم رہیں‘ ارمان حالات کے بھنور میں ڈوب جائیں تو بھی ان سے ناطہ توڑنا زندگی سے بےرُخی برتنے کے گناہ کی ہم معنی ہوتی ہے ۔ چناںچہ جب انسانِ اول نے دنیا کے خار زار میں بودوباش اختیار کی تو وہ بھی خوابوں اور آرزو ؤں کا گلستان لئے اس آشیانے میں قدم رنجہ ہوا۔ صانعِ ازل جانتا تھا کہ وہ اپنے لاڈلے مسجودِ ملائکہ انسان کو جس بے آب وگیا بستی کی جانب گزر بسر کرنے کے لئے رخصت کر رہاہے‘ وہاں کوئی دوکان‘ کوئی درخت ‘ کوئی بازار‘ کوئی درودیوار اسے خوش آمدید کر نے کے لئے چشم براہ نہیں ‘ اس لئے خالق ِکائنات نے از راہِ کرم انسانِ اول کی فطرت میں آرزوؤں کےپھاوڑے‘ خوابوں کے کدال اور کاوشوں کا بلڈنگ مٹیر ئل رختِ سفر کے طور چھپائے رکھا تاکہ ان کے طفیل اللہ کی چہیتی مخلوق ایک ایسی دنیا تعمیر کرسکےکہ جہاں رزق کی فراوانی ہو‘ آرام و سہولیات کا سایہ دراز ہو ‘ امن و اطمینان کی بہاریں ہوں ‘ عبادت ِ الہی کی رونقیں ہوں‘ اور انسان بہشت والی نہ سہی مگر کم ازکم ایک ایسی متوازن اور پُرسکون زندگی زمین پر گزارسکے جو اس کی اشرف المخلوقیت کے شایانِ شان ہو۔ انسانِ اول نے فطرت کے عطاکردہ انہی خوابوں اور آرزؤں کو مشعل ِ راہ بناکر کاروبارِ زندگی کا راستہ پکڑا ‘ اپنے اَرمانوں کی ڈولی میں رنگ برنگے منصوبے سوار کئےاور کشمکش ِزندگا نی کے ایک طویل سفرکا آغاز کیا۔ بالفاط دیگر انسان کرۂ ارض پر کوئی بھولا بھٹکا راہی نہیں‘ خالی ہاتھ نہیں ‘ گم گشتہ راہ نہیں بلکہ کا تب ِ تقدیر نےاُس کی فطرت میں زمین پر زندگی گزارنے کے لئے اسے ایک نقش ِراہ ‘ تازہ دم خیالوں کا قافلہ‘ محنتوں کا جذبہ ‘ عزائم کا زاد ِراہ‘ بقائے ذات کاولولہ‘ تہذیب و تمدن کااُجالا ودیعت کر کے رکھا ہوا ہے تاکہ دنیا میں حضرت انسان کی زندگی شاہانہ انداز میں گزرے‘ وہ محروم الارث ہو کر نہ جئے ‘اس کی بادشاہی کا سکہ تمام مخلوقاتِ ارضی میں جم جائے ‘ وہ اپنی منازل ِ حیات طے کرتے ہوئے تمام دشواریوں کا بآسانی مقابلہ کرنے کے اہل ثابت ہواور دنیا کو کاملاً اپنے خوابوں کا مسکن اور آرزوؤں کی قرار گاہ بنانے میں کامیاب حاصل کرے۔ سچ مچ انسان کا سفر حیات آدھا ادھورا فسانہ بن کر رہتا اگر اس کی فطرت کی وسیع وعریض پوٹلی میں خالق کائنات نے اس کی ذاتی خواہشوں‘ آرزوؤں‘ تمناؤں اور اورخوابوں کا عطیہ چھپا یا نہ ہوتا ‘ انہی سے وہ حسبِ ضرورت استفادہ کرکے اپنے سفر کو جمیل اور اپنی آبلہ پائی کو حسین بنا پاتا ہے۔ یہ اس کی فطری خواہشیں‘ آرزوئیں‘ تمنائیں ہی ہیں جن کواپنے مصرف میں لاکر ابتدائے آفرینش سے آج تک دنیا کی کارگاہ ِ حیات میں ابن آدم جئے جا رہاہے‘ اپنے نیک وبد مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہے ‘ اپنے خیالوں کے گھروندے بناتا ہے‘ اپنی تمناؤں کا خم خانہ سجا تا ہے ‘ اپنے خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈنے میں سر گرداں رہتا ہے۔ اگر یہ خواب اور آرزوئیں نہ ہوں تو دنیا کی تاریخ بڑے بڑےبڑے سائنس دانوں‘ موجدین‘ فلسفیوں‘ دانش وروں‘ مدبرین‘ حکمرانوں اور تاریخ کی ناقابل فراموش ہستیوں سے خالی ہوتی ؎
ہم سفر انسان کے کچھ خواب رہنے چاہیے
ورنہ خوشیوں کا مزاکیارنج و غم کا کیامدعا
بیتے زمانے میں انسانوں کے کیا خواب رہے ‘ آرزوئیں کیاتھیں ‘آج ان کی خواہشیں اور تمنائیں کیا ہیں ‘اس کےتقابل پر ایک اُچکتی نگاہ ڈالئے تو نظر آئے گا کہ گرچہ زمانے کے تغیر وتبدل ‘ تہذیبی ارتقا اور ثقافتی پیچ وخم سے انسانی سوچ اور پسندوناپسند میں گہری تبدیلیاں واقع ہوئیں‘ اس کے خواب بدل گئے مگر لمحہ بھر کے لئےبھی یہ نہ مرے ‘ اُن کےاَرمانوں کی شکل کچھ سے کچھ ہوگئی‘ ترجیحات کا پیمانہ تلپٹ ہوا‘ جینے کے انداز واطوار نت نئی صورتیں اختیار کر گئے مگراس کےخوابوں کی تخلیقی اور تسخیری فطرت نہیں بدلی۔ ہاں دنیا کی ابدی آزمائش گاہ میں صانعِ ازل نے ایک انسان کا خواب دوسرے انسان کے خواب سے مختلف رکھا ‘ اس لئے انسانوں کے خواب آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ کا خواب کبھی بھی فقیر کے خواب کے مماثل نہیں ہوسکتا۔ خوابوں کےاس ٹکراؤ نے کرۂ زمین کو ہمیشہ تصادم وتزاحم کی جنگ گاہ میں تبدیل کیا۔ یہ مخاصمت تاقیامِ قیامت جاری وساری رہے گی‘ چاہے اسے روکنے کے کتنے ہی اسکیمیں اور فارمولے وضع کی جائیں ۔ یہ دو عالمی جنگوں کی بات ہی نہیں بلکہ عالمی تاریخ ساری کی ساری خون ریزیوں ‘ فتنہ سامانیوں‘ عذابوں ‘ عتابوں اور سنگ دلیوں کے حوالے سے خون کے آنسو رُلادینے والی داستانیں سناتے ہوئے باور کراتی ہے کہ قابیل نے ہابیل کا قتل ِناحق کرکے جس خون آشام رسم کی بناڈال دی تھی ‘ نوع انسانی تہذیب وشرافت کی اونچائیاں چھونے کے باوجود ہمیشہ اس رسم کی آبیاری سے ایک یادوسرے بہانے قتل و خون کر تی رہی اور آئندہ بھی کرتی رہے گی ۔بایں ہمہ اگلے زمانوں میں آج کے ’’مہذب دور‘‘کے مقابلے میں انسان قدرے امن وطمانیت اور خلوص ومحبت کی زندگی بسر کر رہا تھا‘ اس کی طلب کا دامن چھوٹا تھا ‘اس کی لالچ کا پیٹ زیادہ پھولا ہوا نہ تھا‘ اس کےفکر وغم کا دائرہ محدود تھا ‘ اس کے مسائل ِزندگی پیچ در پیچ نہ تھے کہ پیچھا ہی نہ چھوڑتے‘ اس کی اُمیدیں قلیل تھیں‘ اس کی ضرورتیں اور چاہتیں بھی عموماً اسے دوسروں کو لوٹنےاور مٹانے کی محرک نہیں بنتی تھیں ‘ اس کےخوابوں کا آسمان تھوڑا سا تھا ‘ تمناؤں کی زمین بھی بہت محدود تھی اوراس کے دل میں یہ سادہ سےارمان مچلتے تھے ؎
اک بغل میں چاند ہوگا اک بغل میں لوریاں
اَک بغل میں نیند ہوگی اِک بغل میں لوریاں
ہم چاند پہ روٹی کی چادرڈال کر سوجائیں گے
اورنیند سےکہہ دیں گے لوری کل سنانے آئیں گے
اس کے مقابلے میں آج کا انسان جس دنیا میں سانسیں لے رہاہے‘ وہ دنیا شور وشر ‘ فساد وفتن ‘ بداعتمادی ‘ دشمنی ‘رقابت ‘عناد ‘ فریب کاری ‘اذیت پسندی کی دلدادہ دنیا ہے۔اس دنیا کی لگام گنتی کے چند عالمی چودھریوں کے ہاتھ میں ہے ‘ ان عالمی پٹواریوں کے لئے امن وآشتی کی بہارپیغامِ اجل ہے ‘ ان کےعزائم کو جنگیں راس آتی ہیں‘ انہیں سکون و آرام سے جینے سے چڑھ ہے ‘ انہیں نئے نئے کنفلکٹ زون پیداکرکے اپنے نجی معاشی مفادات اور سیاسی دبدبہ کی دلالی کرنا مستقل ضرورت ہے‘ اس لئے شاد وآباد بستیوں پر تباہی کا جھاڑو پھیرناان کا مشغلہ ہے‘ اسلحہ سازی ان کا دھندا ہے‘ ہلاکت آفرین سازشیں رچاناان کی مجبوری ہے ‘ ہمسایہ ملکوں کے چھوٹے بڑے اختلافات کی آڑ لے کر انہیں پہلے لڑانا ‘ پھر ان پر اپنی ثالثی تھوپنااس کی حکمت عملی ہے‘تنازعات میں ثالثی بھی اس منافقانہ انداز سے کرنا کہ جھگڑا ختم ہو نہ تنازعہ نپٹ جائے بلکہ محاوراتی زبان میں کتے کو وہیں کا وہیں چھوڑکر کنوئیں سے سوبالٹیاں نکالنا اور اپنے لئے نوبیل پرائز کے دعوے داغ دینا‘ اپنا مطلب نکالنے کے لئے جمہوریت جمہوریت کی راگ الاپنا ‘بشری حقوق کی دہائیاں دینا اور جب ضرورت ہو تو جارحیت کو ہوادینا ان کی ا سٹرٹیجی ہے‘ غریبوں کے وسائل بے دردی سے لوٹنا ‘ امیروں کی بھری پڑی تجوریاں اور زیادہ بھرناان کے معاشی نظریے اوراقتصادی فکر کا لب لباب ہے۔ بنابریں ہماری دنیا میں فسادات ختم ہونے کانام نہیں لیتے‘ اختلافات سلجھنے کے بجائے اور زیادہ الجھتے ہیں‘ تصادموں کے نئے نئے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ ویسے بھی اس دنیا کے امیرملکوں کو امن اور آدمیت سے کیا مطلب ‘انہیں مادی ترقیوں کی چکا چوندی چا ہیے‘ کارپوریٹ ورلڈ کی امارت چاہیے ‘ غریب ملکوں کے لہو کمزور قوموں کے نوالے سے اپنی مملکتوں میں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کاشوق پورا کرنےکے لئےوافر سرمایہ چاہیے ‘عیش گاہوں‘ حرم سراؤں اور تفریخ طبع کی حرام کاریوں کی لذت کوشی چاہیے ۔اس لئے ان کے ملکی حدود سے باہر دنیا کے تمام ستم رسیدہ غریبوں کے لئے قدم قدم تیر ونشتر ہیں‘ نگر نگر تکالیف واذیتیں ہیں‘ غزہ‘ شام ‘ لبنان ‘یوکرین اور سوڈان جیسی الم نصیب داستانیں ہیں۔
اپنے زمانے میں انہی ناگفتہ بہ آلام ومصائب سے دوچار کوتاہ نصیب دنیا کی رام کہانی غالبؔ نے صرف غدر کی مصیبتوں کی صورت میں دیکھی ‘ گوروں کا عتاب جھیلا ‘ تہمتیں اوربے عزتیاں پائیں توتنگی ٔ قلب اور پامالی ٔ رُوح کو زبان دی ؎
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اورہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
اوراقبال نے اپنی دُنیا کے اسی شور وشر پر مایوسی اورحزن و ملال کے عالم میں ’’ایک آرزو‘‘ میں کہا تھا ؎
دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
ستم بالائے ستم یہ کہ اگرچہ آج ملکوں کے بیچ ہزاروں کلومیٹر پر محیط فاصلے مختصر ہوچکے ہی اور قوموں کے درمیان دُوریاں برق رفتار طیاروں اور تیزگام مواصلاتی روابط سے بے معنی ہوئی ہیں مگر افسوس کہ انسانوں میں تاریخ کی چھوڑی ہوئی زہرناک تلخیوں‘ گندی سیاستوں اور خود غرضانہ مفادات کے چلتے انسانیت کا رشتہ پامال ہے‘ خیرخواہی کا جذبہ ناپید ہے ‘ اتحاد وبھائی چارہ عنقا ہے اور بغض و منافرت کا حال یہ کہ ایک معمولی دیاسلائی انہیں ایک دوسرے کے خلاف آگ بگولہ ہونے اور خرمن ِ امن کو آناًفاناً آگ لگانے کے لئے کافی ہوتی ہے ‘ یہ ایک دوسرے کے لئے موت اور تباہی کے موجب بننے کے لئے ہر لحظہ تیار رہتے ہیں۔
کہنے کو دنیا میں سابق لیگ آف نیشنز( مجلس ِ اقوام ) کاجانشین عالمی ادارہ اقوام متحدہ موجود ہے جو اقوام ِ عالم کے امن و اتحاد کا مظہر ہے‘ جس کا منشور عالمی امن یقینی بنانا ہے ‘ جس کے ذمہ جنگ و جدل سے پاک دنیا میں امن اور ترقی کے تمام شعبوں کی پیشوائی کر نا ہے ‘ جو بھوک بیماری اور ناخواندگی جیسے روگوں سے نجات پانے کے لئے تریاق ہے‘ جو آمادہ ٔ جنگ قوموں کے مابین امن وآشتی قائم کرنے‘ انہیں صلح سمجھوتے اور پُرامن بقائے باہم کے اصولوں پر کاربند ہونے کا پیامی ہے مگر یہ آہ! ادارہ بھی انہی عالمی چودھریوں کے ہاتھوں کی ایک کٹھ پتلی بن کر اپنے اعلیٰ وارفع مقاصد سے غافل ہے۔ اُدھر جدیدانسان کی دلچسپیاں رنگا رنگ ہیں‘ وہ مزاجاً وسیع القلب ہے‘ جمہوریت اور ہیومین رائٹس کا دلداہ ‘ لبرل ‘ سوچ کےکنواس میں وسیع النظر ‘ایک ہاتھ تسخیر کائنات کا جنون لاحق ‘ دوسرے ہاتھ سائنس وٹیکنا لوجی میں ترقیوں سے دلچسپی مگر پھر بھی جنگ وجدل‘ افراتفری ‘ نفرتیں‘ عداوتیں ‘ نسلی تفاخر ‘ اپنی خدائی کا غلغہ‘ مارا ماری کا سلسلہ ‘ کمزوروں کو دبانا ‘ بے نواؤں کو لوٹنا‘ اس جدیدانسان کی دیوانگی کے وہ نمونے ہیں جن پر انسانی ضمیر کانپ اُٹھتا ہے ‘ روح تھرتھراتی ہے ۔ ایسے میں کوئی مخلص دیوانہ امن وعدل کی یہ آواز دینے لگے تو یہ نظم الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ جہنم زار میں تازہ ہوا کے جھونکے کے برابر لگتی ہے اور مایوسی ونامرادی کے اندھیروں میں ایک مدہم شمع کا پیغام دیتی ہے
کہ ؎
کہ اُمید ابھی باقی ہے ‘اک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظلم نہ ہو اور جینا جہاں جرم نہ ہو
جہاں پھول خوشی کے کھلتے ہوں‘ جہاں موسم سارے ملتے ہوں
بس رنگ اورنور برستے ہوں اور سارے ہنستے بستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی‘ جہاں جھوٹ کا کارو بار نہ ہو
جہاں دہشت کا بازار نہ ہو‘ جہاں جینا بھی دشوار نہ ہو
جہاں مرنا بھی آزار نہ ہو
جہاں منصف سے انصاف ملے ‘جہاں دل سب کا سب سے صاف ملے
اُمید ہے ایسی بستی کی ‘کاش یہ بستی تیری ہو کاش یہ بستی میری ہو