Ad
افسانہ

بڑھاپے کا سودا......افسانہ

✍️:. عبدالرشید سرشار 


​گاؤں کے بیچ میں مٹی کی کچی اینٹوں سے  بنےگھر کا باسی عبدالرزاق تھا، جسے بستی کے لوگ پیار سے رزاق کاک  کہتے تھے۔  کسی کو نیکی اور سخاوت کی مثال دینی ہوتی تو رزاق کاک کا نام کافی تھا۔ خدا نے اسے دولت  نہیں دل کی فراخی عطا کی تھی۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ گھر ہمیشہ قہقہوں اور مہمانوں کی آمد رفت سے معمور رہتا تھا۔

​رزاق کاک صرف  مہمان نواز  ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک یار باش اور محنتی کسان بھی تھا، جس کی محنت نے رفتہ رفتہ گھر میں فارغ البالی لائی۔

​بچوں کی شادیاں ہوئیں، تو رزاق کاک نے دل کھول کر  پیسہ خرچ کیا۔ واہ کیا خوب زمانہ تھا جب رشتے خون ،عزت اور خدمت سے جڑے ہوتے تھے۔

​مگر تارے ہمیشہ   گردش میں رہتے ہیں۔ دھوپ ڈھلتی ہے اور سائے لمبے ہو جاتے ہیں۔

​جب رزاق کاک کے سر کے بال سفید ہوئےاور قمر خمیدہ ہوگئی تو اپنے اور پرائے سب کا خون بھی سفید ہو گیا۔ بیٹیاں اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں، ان کی اپنی اپنی دنیا تھی،بوڑھے ماں باپ کے لیے ان کے پاس وقت نہیں تھا۔

​ادھر دونوں بیٹے جب تک باپ کی بیساکھیوں کے سہارے چلتے رہے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہاجیسے ہی وہ اس محتاجی سے بےنیاز ہوئے، اپنے باپ سے آنکھیں پھیر لیں۔ بیویوں کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کی، گھر میں خاموشی سے لکیریں کھینچیں اور اپنی اپنی کوٹھریاں سنبھال کر بچوں میں مشغول ہو گئے۔ بیٹوں کے دلوں میں کوئی بغاوت نہیں تھی، صرف ایک لاپرواہی تھی جو عام خاندانوں میں بڑھاپے کے ساتھ عام ہو جاتی ہے۔

​رفتہ رفتہ، بہوؤں نے رشتہ داری کے حقوق اور خدمت کی ادائیگی سے شتر مرغ کی طرح آنکھیں موند لیں۔ رزاق کاک کا دل، جو کبھی مقدور سے بڑھکر سخاوت کرتا تھا، اب روٹی کے دو ٹکڑوں کے لیے بھی ترسنے لگا۔ سب سے بڑی تکلیف یہ تھی کہ دہائیوں کی عادت  یعنی مہمان نوازی، اب وہ جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ مہمان آتے، ان کی بے عزتی ہوتی، اور رزاق کاک کو شرمندگی کی آگ میں جلنا پڑتا۔ جسم ٹوٹ چکا تھا، مگر حوصلہ  بلند تھا، اور اسی ولولے نے رزاق کاک کو مجبور کیا کہ وہ کوئی متبادل ڈھونڈ نکالے۔

​مشورے ہوئے اور رزاق کاک نے ایک جذباتی فیصلہ کیا۔ اپنی سب سے بڑی بیٹی عائشہ کے پاس پناہ لی۔ زمین، زراعت سب اپنے پاس رکھا۔

​کچھ عرصہ سکون ملا۔ مگر کہتے ہیں، جہاں دولت کی بدبو آتی ہے، وہاں رشتوں کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔

​پانچ سال گزرے۔ ماحول میں تغیر آنا شروع ہوا۔ عائشہ کے بچے رزاق کاک کی دولت کو اپنی وراثت سمجھ کر ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ وہیں  رزاق کاک کے دل میں اپنے بیٹوں کے لیے دوبارہ محبت اور نرمی جاگنے لگی۔ وقت نے تلخی کی کڑواہٹ کم کر دی تھی۔

​ادھر، عائشہ کا شوہر غلام رسول اور بڑا بیٹا اس "فائدے" کو مستقل کرنے کے لیے بے چین تھے۔ عائشہ کا بیٹا سڑک کنارے تین مرلہ کی بیکار زمین پر کمپلیکس بنا کر اپنے کاروبار کو وسعت دیناچاہتا تھا۔ اور غلام رسول مزید انتظار  کرنے کا روادار نہ تھا، وہ اپنے بیٹے سے بھی بڑا خواب دیکھ رہا تھا کہ  رزاق کاک کی زرعی زمین پر باداموں  کا باغ لگائے۔ یہ ایک بڑی سرمایہ کاری تھی،  باغ بنتے ہی، قانون کی نظر میں زمین اس کی ہو جاتی، جسے  کوئی  طاقت بدل نہیں سکتی تھی۔

​ خفیہ سازش کی بھنک رزاق کاک کے دونوں بیٹوں کو لگ گئی۔ وہ پہلے سے ہی باپ کی دولت کھو کر جلے بھنے  تھے۔ پانچ سال کی دوری نے کڑواہٹ تو ختم کر دی تھی، لیکن اصل چیز جو ختم نہیں ہوئی تھی وہ ورثے کی امید تھی۔

​دونوں بیٹوں نے موقعے کی نزاکت کو سمجھا۔ چپکے چپکے باپ کے پاس گئے۔ عاجزی سے معافی مانگی۔کان پکڑ کر روئے، پرانے گھر کی دہلیز کا واسطہ دیا اور واپس چلنے کی التجا کی۔

​رزاق کاک تو پہلے ہی پر تول رہا تھا۔ بیٹی کا گھر اسے کاٹ رہا تھا اور بیٹے اب اس کا ہتھیار بن سکتے تھے۔ اسے ایک بہانے کی ضرورت تھی۔ اور ایسے بہانے تو اس گھر میں آئے دن ملتے ہی رہتے تھے۔

​ایک معمولی بات پر عائشہ سے جھگڑا ہوا۔ ایک مکروہ کھیل، جو اصل میں جائیداد کے لیے کھیلا جا رہا تھا۔ رزاق کاک نے  بوریا بستر سمیٹاا اور اپنے بیٹوں کے گھر واپس چلا گیا۔

​ غلام رسول  اب کراہ رہا تھا۔ وہ عائشہ اور پانچ سالوں کی  خدمت کو بری طرح کوس رہا تھا، "ناحق خدمت کی، بدنامی بھی خوب ہوئی، اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا۔"

​رزاق کاک واپس اپنی پرانی کوٹھری میں پہنچ چکا تھا۔ بیٹوں نے اس کی خاطر مدارت شروع کر دی۔ مگر رزاق کاک کا دل خالی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ یہاں محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ زمین جائیداد کی بدولت  کٹھ پتلی بن چکا تھا۔ اس نے اپنے دل میں سوچا، " بوڑھا ہونا ہی جرم ہے۔

​اور اسی دن، رزاق کاک کو یقین آ گیا کہ رشتوں کی حقیقت صرف ایک خاموش سودا ہے، جسے بڑھاپا ہر قیمت پر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ زندگی کی  سب سے بڑی مجبوری تھی جسے وہ ہنس مکھ شخص اپنے سینے میں لیے بغیر کسی قہقہے کے خاموشی سے جینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالسیڈار ویریناگ

7006146071



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!