Ad
افسانہ

ممتا کی قربانی..... افسانہ

✍️:. عبدالرشید سرشار 



​سلیمہ محض نام کی سلیمہ نہ تھی، بلکہ دیہاتی زندگی کی وہ سچی دیوی تھی جس کے دم سے گھر میں اجالا ہوتا ہے۔ اللہ نے اسے شکل و صورت کے ساتھ ساتھ سلیقہ شعاری اور صبر و قناعت کی دولت سے بھی مالا مال کیا تھا۔ جب وہ ڈولی میں بیٹھ کر شوکت کے گھر آئی، تو اپنے ساتھ نہ صرف ماں باپ کی دعائیں لائی تھی بلکہ اپنی گھر گرہستی کو جنت بنانے کا عزم بھی۔ شوکت بھی گاؤں کا ایک سیدھا سادہ، محنتی کسان تھا۔ اس کے ہاتھوں کے گھٹے اس کی محنت اور رزقِ حلال کی گواہی دیتے تھے۔

​زندگی کے دس سال کسی سہانے خواب کی طرح بیت گئے۔ دال روٹی کی فکر ضرور تھی مگر دل کی بادشاہی قائم تھی۔ آنگن میں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی کلکاریاں گونجتی تھیں تو ساری تھکن اتر جاتی۔ گھر کیا تھا، پیار اور سچائی کا گہوارہ تھا۔ لیکن تقدیر کو غریب کے لبوں پر مسکراہٹ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

​اچانک مصیبت کا ایسا طوفان اٹھا کہ شوکت، جو اس گھر کی بنیاد تھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ گھر کا چراغ کیا گل ہوا، سلیمہ کی دنیا تاریک ہو گئی۔ ابھی تو زندگی کی دوپہر بھی نہ ڈھلی تھی کہ معصوم جان حوادث کی شکار ہوگئی ۔سر سے چھت ہٹی تو زمانے کی لو اور گرم ہواؤں کے تھپیڑے سیدھے سلیمہ کے وجود پر لگنے لگے۔

​وہ سسرال والے، جو کل تک بہو کے گن گاتے نہ تھکتے تھے، شوکت کی آنکھ بند ہوتے ہی ان کی آنکھیں بھی پھر گئیں۔ بیوہ اور تین یتیم بچے اب انہیں بوجھ لگنے لگے۔ بجائے سہارا دینے کے، انہوں نے دودھ میں سے مکھی کی طرح انہیں الگ کر دیا۔ ادھر میکے والوں نے بھی غریبی کا رونا رو کر اپنی ذمہ داری سے پلو جھاڑ لیا۔ دنیا کا دستور یہی ہے، چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے، ڈوبتے کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا۔

​اب سلیمہ تھی اور اس کے تین پھول سے بچے۔ حالات کی چکی نے اس نازک بدن عورت کو فولاد بنا دیا۔ وہ جو کبھی گھر کی رانی تھی، اب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کھیتوں میں مزدوری کرتی، لوگوں کا جھاڑو پونچھا کرتی۔ دن بھر اعصاب توڑ مشقت کرتی تاکہ بچوں کو بھوکا نہ سونا پڑے۔ لیکن دن کی مشقت سے کہیں زیادہ بھیانک رات کا سناٹا تھا۔ بیوہ کی جوانی اور تنہائی، گِدھوں کو دعوتِ عام تھی۔ گاؤں کے چوہدری اور اوباشوں کی ہوس بھری نگاہیں اس کا پیچھا کرتیں، مگر وہ اپنی عصمت کی چادر کو دانتوں میں دبائے ہر طوفان سے ٹکراتی رہی۔

​رشتہ داروں کا خون سفید ہو چکا تھا۔ سلیمہ کے دل میں دو ہی غم نیزے کی طرح چبھتے تھے؛ ایک بچوں کی تعلیم اور پرورش، اور دوسرا اپنی ویران ہوتی جوانی۔ فطرت کا تقاضا تھا، کبھی کبھار دل میں خیال آتا کہ دوسرا گھر بسا لے، اپنا کوئی سہارا ڈھونڈ لے۔ مگر سماج کی روایات اور ممتا کا جذبہ راستے کی دیوار بن جاتا۔

​وہ جانتی تھی کہ یہ سماج عورت کو "سوت" تو قبول کر سکتا ہے مگر کسی کے بچوں کو نہیں۔ اسے ڈر تھا کہ نیا خاوند اگر مل بھی گیا تو وہ ان یتیموں کو گھر سے نکال پھینکے گا۔ تب یہ بچے "دوہری یتیمی" کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔

​بس یہی سوچ کر اس "ماتا" نے اپنے اندر کی "عورت" کی بلی چڑھا دی۔ اس نے اپنی خواہشوں، امنگوں اور جوانی کے جذبات کو بچوں کی محبت پر قربان کر دیا۔ وہ سماج کی بے حسی کے سامنے ایک خاموش مورتی بنی، اپنے آنسوؤں کو پی کر، اپنے بچوں کے مستقبل کی شمع جلائے، زندگی کی کٹھن راہوں پر اکیلی چل رہی ہے۔ایک ایسی حور جو سب کچھ لٹا کر بھی خاموش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالسیڈار ویریناگ

7006146071



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!