Ad
مضامین

جن ۔زی کون ہیں یہ لوگ؟

✍️:. ش م احمد / سری نگر 


     گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر ڈھاکہ میں اُن کی اپنی ہی بنائی ہوئی خصوصی عدالت نے موصوفہ کو موت کی سزا سنائی تو میڈیا میں ایک بار پھر جنر یشن زِی کاتذکرہ ہوا۔ جن ۔زی عالمی میڈیا میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاح بن چکی ہے ۔ زبانِ سیاست میں یہ عہد ِرواں کے سماجی انقلابوں  اَدلتی بدلتی حکومتوں اور خوں آشام تختہ پلٹ احتجاجوں کے پیچھے ذمہ دار اصل کرداروں کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ لوگ انہیں انقلابی کہیں‘ ہلڑ باز سمجھیں ‘ ڈیجٹل ورلڈ کے بطن سے پیدا شدہ سوشل میڈیا جنگ باز کانام دیں‘ مست مولا کا لقب دیں ‘ بہرحال یہ پوری دنیا میں ایک ایسی ڈیجٹل نسل ہے جن کو قابو میں کرنا شاید کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ انہیں چشم ِ فلک نے ۲۰۱۱ کے عرب بہاریہ سمیت حالیہ برسوں میں سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور نیپال میں مستانہ وارایجی ٹیشن کرتے اور مقتدر ہستیوں کو چلتا کرتے ہوئے پایا ۔ ان ممالک میں موبائل کا ائر فون کانوں میں ٹھونسے دن بھر تھرکنے والاا ور بظاہر سیاست ِزمانہ سے دلچسپی نہ رکھنےوالی جن ۔زی یعنی جواں عمر طلبہ وطالبات کاسیل ِ رواں سڑکوں پر امڈ آتا ہے اور بغیر کسی منظم پارٹی یا مرکزی لیڈر کے وقت کے استحصالی نظام سے چھٹکارا پانے کے لئے نعرہ بازیاں کرتا ہے‘ توڑ پھوڑ اور تخریبی کارروائیوں پر اُتر آتا ہے ‘ حکومتی ڈنڈے برداشت کرتا ہے‘ گولیوں کی دندنا ہٹ کےڈراؤنے منظر دیکھ کر پیچھے نہیں مڑتا ‘ ساتھیوں کی لاشیں گن کر بھی اپناجوش ِ عمل ٹھنڈا نہیں ہونےدیتا ‘نہ صاحبانِ اقتدار کی امن اپیلوں پر کان دھرتا ہے، یہاں تک ملک کےارباب ِ اقتدار کوچاروناچار کرسیوں سے ہٹنا پڑتا ہے۔ یوں جن ۔زی نے دکھاتی ہے کہ جب یہ اٹھتے ہیں تو اچھے اچھوں کا پتہ صاف کر کے دم لیتے ہیں۔ اس نسلِ نو نے کسی جمہوری عمل اور منظم انقلاب کی حکمت عملی آزمائے بغیر تاریخ کا رُخ محض تحرک اور تصادم سے موڑا اور تخت ِحکمرانی پر نئے چہرے بٹھاکربازو ہٹ گئی۔ اس کے غصے کے سبب سابقہ مقتدر ہستیاں اسی طرح اپنے وطن سے بھاگ کھڑی ہوئیں جیسے شام کے بشار الاسد کو کئی سال طویل جنگ آزمائی کےبعد رات کے اندھیرے میں دمشق سے اُڑان بھر کر ماسکو میں پناہ گزین ہونا پڑا تھا۔ اپنی باری پر حسینہ واجد نے بھی یہی کیا۔ حق یہ ہے کہ جن۔ زی آج کی کوئی نئی کہانی نہیں بلکہ  عالمی تاریخ ہمیشہ اس نسل کی پرورش وپرداخت اپنے طویل سفر کےدوران اخفا کے پردوں میں کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کی ایک اچھوتی مثالیں انقلابِ فرانس پیش کرتا ہے۔ یہ ۱۷۸۹ تا ۱۸۹۹  کا زمانہ تھا ‘ فرانس کی زُمام ِ کار موروثی بادشاہت کے ہاتھ میں تھی ‘لوئس سولہویں تخت نشین تھا ‘ رعایا غربت‘ کسمپرسی اور عدم شنوائی سے صدیوں سے جھوج رہی تھی‘ بادشاہ اپنے محلات میں دادِ عیش دینے اور شہ خرچیاں کرنے میں محو تھا‘ اسے ملکاؤں کی نسوانی فرمائشیں پوری کر نے سے ہی فرصت نہ ملتی تھی‘ رعایا کا کیا خاک بھلا کرتا۔ قوم کی غربت اور ملک کو درپیش سنگین اقتصادی وسماجی بحرانوں کے باوجود امریکہ کی سات سالہ جنگ ِآزادی میں کی حمایت ومعاونت کرکے بادشاہ نےفرانس کو کنگال اور شاہی حکومت کو بے حدمقروض کرکے چھوڑا تھا۔ بھاری قرضے کی ادائیگی کا ایک ہی راستہ کھلا تھا کہ غریب رعایا کے نشانوں پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید لادا جائے ۔ نئے شاہی محصولات سے غریب لوگوں کی کمریں مزید ٹوٹ گئیں۔ ستم بالائے ستم قدرت نے بھی  غربا پر غضب ڈھایا‘ ناسازگارمو سم سے یک قلم کھڑی فصلیں خراب وبرباد ہوگئیں یعنی لوگوں کے جینے کا سہارا چھن گیا‘ کسانوں کی محنتیں اکارت گئیں‘ غلے کاکال پڑا ‘ قحط سالی سے لوگ بے موت مارنا شروع ہوئے، روٹی کی قیمتیں عام لوگوں کی قوتِ خرید سے مکمل طور باہر ہوگئیں ‘ بھکمری سے ڈھنگ سے مرنا بھی دشوار ہوا ‘ لوگ صرف مرنے کی اُمید میں جیتے رہے۔ بادشاہت کے جابرانہ نظام کی انتہا بھی دیکھئے کہ ٹیکسوں کے حوالے سے فرانسیسی معاشرے کو تین طبقوں میں منقسم تھا: پہلا طبقہ پادریوں کا تھا،اسے ٹیکسوں سے استثنیٰ حاصل تھا‘ دوسرا طبقہ اشرافیہ اور درباری امیروں پر مشتمل تھا،اسے بھی ٹیکسوں سے مکمل چھوٹ تھی، رہے۹۷ ؍ فی صد غریب ونادار لوگ ‘ اُن کے سرپر ٹیکس کی تلوار ہمیشہ لٹکتی ‘ تکالیف کے خنجر سدا برستے ۔ شاہی نظام عام لوگوں کی محرومیوں اور تلخ کامیوں سے  لاتعلق اور ناواقف ِ محض تھا۔ مثلاً ایک بار ملکۂ فرانس کو غریبوں کی دادرسی کے لئے کسی نے یہ عرضداشت گزاردی کہ مملکت میں کسان مزدور کاریگر اور متوسط طبقات کے پاس کھانے کو روٹی میسر ہی نہیں‘ اُس نے بڑے ناز واندام سے کہا کہ لوگوں کو روٹی جگہ کیک کھانے کا حکم دیا جائے ؎

اور بھی دورِ فلک ہیں آنے والے

 ناز اتنانہ کریں ہمیں ستانے والے

 ان حالات وکوائف کے دباؤ میں وقت آگیا تھا کہ جن ۔ زی شاہی ظلم و جبر کا خاتمہ کرنے آگے بڑھے۔ تاریخ کا پہیہ بھی منتظر تھا کہ کب شاہی نظام کی لگام جمہوریت کے توسط سے عوام کے اپنے ہاتھوں میں گردش کرنے آ ئے۔ مظالم اور مصائب نے فرانس کی زمین انقلاب ہموار کی ہوئی تھی، سوکھے گھاس کے ہمالیہ کو اب دیاسلائی دکھانے کی ضرورت تھی ۔ زمانے کےجن ۔زی کے واسطے رُوسو سمیت کئی فرانسیسی روشن خیال اور جمہوریت نواز مفکرین کے انقلابی خیالات نے ماچس کاکام دیا‘ نسلِ نو ان کے وچاروں کی روشنی میں ملکی انقلاب کی حامی بھر لی ‘ شاہی نظام کی مخالفت اور جمہوریت کی حمایت میں ہر کس وناکس سرگرم ِ عمل ہوا ‘ بادشاہت کے خلاف بغاوت کی شعلہ زنی شروع ہوئی تولوئس نے  گدی بچانے کے لئے جارحیت کا ڈنڈاتھاما مگر نسلِ نو نے جوعلم ِ بغاوت بلند کیا تھا ‘ وہ کسی صورت سرنگوں نہ ہو ا۔ بغاوت کے بل پر بہت جلد شاہی حکومت کی زنجیروں سے لوگ آزاد ہوگئے ‘ بادشاہ اپنے اعیان واکابرین سمیت اپنے ہی عیش گاہوں اور محلات میں محصور ہوئے‘ باہر عوام کی مارا ماری کے گھٹا ٹوپ اندھیرےمیں شاہی سپاہ کا حوصلہ ٹوٹ گیا‘ نوبت یہ آئی کہ بلوائیوں نے کنگ لوئس ‘ کوئین ملکہ اور کئی دوسرے اہم لوگوں کو پکڑ کر عراق کے مصلوب صدر صدام اور لیبیا کے معمر قذافی کی طرح بے دردی سے مارا۔ ملک میں طوائف الملوکی ‘ لاقانونیت اور بدنظمی کا حال یہ تھا کہ مشتعل جن۔ زی کے ہاتھوں فرانسیسی عوام کے کئی ایک خیرخواہ اور ہمدرد ‘ جمہوریت حامی عالم وفاضل‘ اعلیٰ پایہ دانش ور اور سائنس دان بھی کنگارو عدالت کے غیرمنصفانہ ‘ عجلت پسندانہ اورجعلی سماعتوں کے بعد ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سےتہ تیغ ہوئے۔ اسی طرح کی ایک مثال جن۔ زی نے ۲۰۱۱ میں عرب بہاریہ میں بنانی چاہی۔ اس کا تجربہ تیونس سے شروع ہواجب سرکاری گماشتوں نے طارق محمد بزیزی نامی ایک چھاپڑی فروش کو سرراہ ٹھیلہ لگانے سے منع کیا۔ غربت وافلاس گزیدہ طارق کے لئے چار پیسہ کماکر اپنا پیٹ پالنے کا واحد ذریعہ چھین لیا گیا تو اُس نے احتجاجاً خود سوزی کر کے اُس چنگاری کو شعلہ زن کیا جو تیونس میں اقتدار کے مالک ومختار آمر زین العابدین بن علی کی ۲۳؍سالہ شخصی حکومت کے خلاف راکھ کے ڈھیر میں دبی ہوئی تھی ۔ تیونس کی جن ۔ زی نے سوشل میڈیا پر طارق کے حق میں اور بن علی کی بغاوت میں احتجاجی پروگرام کا اعلان کیا ‘دیکھتے ہی دیکھتے حکومتی سطح پر ہر طرح کی جارحانہ کاروائی میں ناکامی کے بعد بن علی اپنے محل سے فرار ہوکر سعودیہ میں پناہ گزین ہوا۔ بات اسی پرختم نہ ہوئی بلکہ یہی تجربہ مصر میں حسنی مبار ک ‘ لیبیا میں معمر قذافی ا ور یمن میں علی عبداللہ صالح کے اقتدار کا بسترہ لپیٹنے کے لئےجن ۔زی نے کمر ہمت باندھ لی ۔ ہوا کارُخ دیکھ کر الجزائر ‘اُردن اور عمان نے عرب بہاریہ کا راستہ روکنے کے لئے بلا تاخیر نام نہاد اصلاحات اعلان کر کے اپنے خلاف بھڑکنے والی آگ ٹھنڈی کردی جب کہ سعودی بادشاہت نے شاہی خزانوں کے ڈھکن کھول کر نوجوانوں کی مالی امدادسےانہیں رام کر کے سیاسی انقلاب کی راہ مسدودکردی۔ یوں عرب بہاریہ کسی منطقی انجام تک پہنچے بغیر خزاں آلودہ ہوا ۔    

 جن ۔زی ہماری دنیا کی ہر قوم اور ملک میں پائی جا نے والی ایک عجیب الخلقت نسل ہے۔ یہ کوئی دیومالائی غولِ بیابانی نہیں بلکہ ایک نوعمر انبوہ ِ آدم ہے جس کی رَگ رَگ میں جوش اور نس نس میں شباب بھراہے ۔ اس کے ذہنی اُفق پر جمہوریت کا سورج تاباں ہے اور دل کے سمندر میں انسانیت کی لہریں موجزن ہیں۔یہ آزاد خیالی کی دلدادہ وہ نسل ہے جو مسند اقتدارپر براجمان لوگوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس کے درد کے مداوا بنیں گے‘ مشکل کشائی کریں گے ‘ مسائل کا حل فراہم کریں گے‘ معاشی مساوات اور آسودگی کے ساتھ ساتھ ہر انسان کی عزت وتکریم کریں گے لیکن جب ان کی یہ خوش اُمیدیاں بر نہیں آئیں تو ان کی زبانیں شکایتی ‘ دل احتجاجی اور جذبات سیلابی بن جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ یہ طبقہ گزشتہ بیس تیس سال میں ڈیجٹل دنیا میں غیر معمولی ترقیوں کے کوکھ سے جنما  ہے ۔ ا س کی نسبت عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اس کا ذہن افلاطونی ہے نہ سوچ مسیحا ئی ‘ عمل پارسا ہے نہ وژن کسی بلند نگاہی کا حامل ‘بس اس نے ہر نقشِ کہن مٹانے کا حلف اپنے لاڈلےموبائل کے اسکرین پر ہاتھ رکھ کراُٹھایا ہواہے ‘ اب اس کو نبھانے کی فکر میں دنیا کو تہ وبالا کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کاش اسے گاندھیائی تحریک کی ابجد سے واقفیت ہوتی تو جان جاتی کہ قوم کی تقدیر کڑی محنت اور جہد مسلسل سے بنتی ہے ‘ حقیقی جمہوریت کی شاندار عمارت کھڑی کرنے کے لئے ہنگامہ پرستی نہیں بلکہ ایک اَنتھک جد وجہد‘ ایثار اور ایک مثبت نقش ِراہ درکار ہوتا ہے۔ ان چیزوں کو فرسودگی سمجھ کر وقت کا جن ۔ زی موٹے طور کچھ غم ِیار کچھ فکرروزگار میں سرگرداں ہے‘ اسے برگر کھاکر مزے سے جینے کی عادت نے بگاڑا ہے۔ بے شک یہ چاہتا ہے کہ جن سیاسی قوتوں کے پاس عوامی منڈیٹ کی صورت میں قوم کے مقدر کی چابیاں ہیں‘ وہ خوش عنوانی سے اپنا کام سر انجام دیں‘ بھید بھاؤ اور تعصب سے اجتناب کریں‘ ہر شہری کو اس کا جائز حق دیں‘ سرکاری وسائل کا منصفانہ استعمال کریں ‘ اقربا پروری‘ خاندانی راج ‘ کورپٹ عناصر اور خزانۂ عامرہ لوٹنے والے مگر مچھوں کی حوصلہ شکنی کریں ‘ ہرنوجوان کی جائز مانگوں کو اپنے عیش گاہوں‘ کورپٹ نظام اور کسی مخصوص طبقے کے معاشی مفاد پر قربان نہ کریں، جیو اور جینے دو کےدستور کو اپنا حزرِ جان بنائیں۔ یہ وہ آدرش اور آئیڈئل ہیں جن کی خلاف ورزی انہیں کسی صورت قبول نہیں اور جو حکومتی نظام ان کی نگاہ میں ان آدرشوں پر کھرا نہیں اُترتا‘ اس کےخلاف یہ موبائل پیغامات اور سوشل میڈٖیا کی وساطت سے ایکا کرکے اناپ شناپ بکنے سے احتراز نہیں کرتا۔  

اس آزاد منش طبقے کو رسم ِ دنیا کے ہر قید وبند سے الرجی ہے‘ یہ روایت شکن ہے‘اس کی پسند وناپسند ہے‘ یہ وسیع المطالعہ ہے نہ عمیق نگاہ والا۔اس کی ذہنی تربیت اور سماجی شعورو آگہی یاکسی آئیڈیولوجی سے زیادہ موبائیل کی مرہون ِ منت ہے ‘ چند وائرل ویڈیوز اس کے خیالوں اور آرا کی ترا ش خراش کر کے اسے کسی بھی حد تک استعمال کر سکتی ہیں‘ اس کی عادتیں انٹرنیٹ کی آغوش میں پھوٹتی ہیں ‘ اس کی اتالیقی کافریضہ سوشل میڈیا نبھاتا ہے‘ا س کے  لئے دنیا جاننے ‘ حالاتِ حاضرہ سمجھنے ‘ سچ اور جھوٹ پرکھنے کا پیمانہ موبائیل نامی جامِ جم کے مختصر تبصرے،کچھ ایک میمزاور دوچار ویڈیو کلپس متعین کرتے ہیں۔ البتہ جوان سال لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل یہ گلوبل لبرل ٹولہ نسلوں‘ مذہبوں‘ سرحدوں ‘ زبانوں‘ ثقافتوں اور طرح طرح کی انسانی حد بندیوں سے ماورا ہوکر سوچتا ہے ‘ یہ ایک اچھی صفت ان میں ضر ور پائی جاتی ہے ۔اس چیز کا کھلا مظاہرہ ہم نے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب سے لے کر یورپ و امریکہ تک کے بڑے بڑے شہروں میں ہزاروں غزہ حامی جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کی صورت میں دیکھا کہ کس طرح قوم نسل مذہب رنگ اور علاقائیت اور ہر نوع کے تعصب سے بالاتر ہوکر انٹرنیٹ کی پرور دہ جواں نسل یعنی جن ۔زی غزہ کے مظلومین و متاثرین سے یک جہتی اور صیہونیوں سے نفرت میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑتی۔ یا د رکھیں یہ جوشیلا عالمی گروہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں بلکہ سطح ِ زمین پر جنم پایا ہوا خدا کی زمین سے وابستہ اور پیوستہ ہے ‘ دھرتی کی غذاؤں پر ہی پلا بڑھا ہے مگر اس کی سوچ ہمیشہ خیالی آسمانوں میں پرواز کرتی ہے‘ اس کا بسیرا وہم وگمان کےچاند تاروں میں ہوتا ہے، اس کی منزل خیالی جنت ہے‘ اس کی طبیعت یک گونہ فرسٹیشن زدہ ہے‘ اس کا اوڑھنا بچھونا غصہ اور مشغلہ جوش وجذبہ ہے‘ اس کی آنکھوں میں حقیقی جمہوریت کی نیلم پری کا سپنا بھی رہتا ہے‘ حقوق البشر کا احترام اس کا اچھا ہدف ہے ‘ بدعنوانیوں اور لوٹ کھسوٹ سے پاک حکمرانی اس کی سوچوں کا وہ خوش نماچہرہ ہے جس کی آج کل کے مکروفریب اور دہشت و وحشت زدہ زمانے کو بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ یہ ایک ایسی حال مست جنریشن ہے جو اپنے گردونواح کا حال احوال جاننے اور زمانے کی نبضیں ٹٹولنےکے لئے سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرتی ہے ۔ ہمہ وقت موبائل کی دُنیا میں گم رہنا‘ سونے جاگنے کھانے پینے اورزندگی کے معمولات میں ایک ساعت بھی اپنے قیمتی اور جدیدموبائل کے اسکرین اور کی بورڈ کو آرام نہ کرنے دینا‘آن لائن شاپنگ کا دلداہ ہو نا‘ گھر کا کھانا حلق میں اٹکنا ‘ پِزا فاسٹ فوڈ شوق سے منگانا ‘ ریستورانوں کا طواف کرنا‘ فیشن ایبل ڈرسز پہننا‘ موٹر سائیکلیں اور قیمتی گاڑیاں تیز رفتاری سے اُڑا تے پھرنا ‘ لڑکیوں کے پیچھے مجنون کے نانا بن کے بھاگتے رہنا‘ ناچناگانا اُچھلناکودنا یار دوستوں سے وقت بے وقت ٹھٹھے مخول کرنا‘ منشیات اور دیگر حرافات سے اپنادامن نہ بچانا‘ لمحہ ٔ موجود میں جینا اور مستقبل کی اوبڑ کھابڑ پگڈنڈیوں سے قدرے بے فکر رہنا‘ جن ۔ زی اسی لا اُبالی پن‘ باغیانہ شخصیت ‘ روایت شکن طبیعت ‘ تنقیدی ذہنیت ‘ بے قید آزادی اور بے باکانہ شبابی دور کا نام ہے۔ واقعاتی طور یہ ایک آفاقی نسل ہے جس کے لئےموبائیل جان سے عزیز، سوشل میڈیا بمنزلۂ وحی و الہام ‘ موبائیل پوسٹس پر لایئکس اور کمونٹس میں ہمہ وقت مشغولیت سب سے بڑی عبادت گزاری ہے ‘اس کی ذہنی نشوونما کچھ اس طرح کی عجیب وغریب فضا میں ہوئی ہے کہ اسے ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا روگ لگا ہواہے‘ ہاں اس میں زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جنون بھی تھوڑا بہت لاحق ہے ۔



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!