Ad
مضامین

حج سے غفلت اور عُمروں کی کثرت

✍️:. مفتی محمد اشرف ملک 


جموں کشمیر سے سفر محمود پر جانے والے عازمینِ حج کی شرح سال بہ سال کم سے کمتر ہوتی جارہی ہے. مسلم اکثریتی ریاست میں فریضۂ حج کی ادائیگی میں تشویشناک حد تک گٹتا ہوا رجحان نا صرف حیران کن معاملہ  ھے ,بلکہ لمحۂ فکریہ بھی ہے. 

میڈیا رپوٹس کے مطابق گزشتہ برسوں کے مقابلے میں حج درخواستوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 2017 میں یہ تعداد 35,000 تھی، جو 2024 میں گھٹ کر 4,100 سے بھی کم رہ گئی۔ 

سٹیٹ حج کمیٹی کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر شجاعت قریشی نے بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران بتایا کہ 22 سال میں پہلی دفعہ قرعہ اندازی کی نوبت ہی نہیں آئی کیونکہ 7900 کے کوٹے میں کمیٹی کو صرف 4300 درخواستیں موصول ہوئیں اور ان میں سے بھی 700 افراد نے فارم ہی واپس لے لیے ہیں۔ 

 2026 میں عازمیں حج کی سرمہری مزید مایوس کن ہے. ابتداءََ  31 جولائی 2025  درخواست جمع کرنے کی آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی،لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حج 2026 کیلئے 7,896 حاجیوں کے مختص کوٹے کے مقابلے میں صرف 2,244 درخواستیں ہی موصول ہوئی ہیں۔بعد میں درخواست بھرنے کی آخری تاریخ میں توسیع کرنی پڑی .

اس صورتِ حال میں ناصرف جموں و کشمیر حج کمیٹی کو ایک مایوس کن حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلکہ علمائے کرام اور مذہبی رہنما بھی تشویش میں مبتلاء ہوکے اس کے محرکات,اسباب اور سدِ باب پر غور و خوض کرنے پر مجبور ہوجاتے ہے. 

حج کے تئیں بے اعتنائی اور فرض کی ادائیگی میں غفلت برتنے کے بہت سے اسباب وعوامل ہوسکتے ہیں. جن میں سے چند بنیادی اسباب کی طرف توجہ دلانا مطلوب ہے. 

(1) موجودہ دور کا عام مسلمان مادیت و دنیا پرستی کا شکار ہوکے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے، شان وشوکت بڑھانے اور ہر قسم کی جائز ناجائز خواہشات اور رسم ورواج پورا کرنے میں لگاہوا ہے. دین اور دینی احکام و عبادات کی بجا آوری میں غفلت ,کاہلی اور سہل انگاری کا ایسا عادی ہوچکا ہے. نماز و روزہ جیسی اہم اور آسان عبادات جن میں معمولی وقت اور تھوڑی سی بدنی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے،کیلیے بھی آمادہ نہیں ہوتاھے,توایسے میں حج جیسے مشقت سے بھرپور عبادت جس میں وقت کے ساتھ ساتھ خطیر رقم بھی درکار ہوتی ہے،ایک مادہ پرستانہ ذہنیت کاحامل انسان آسانی سے کیسے تیار ہو سکتا ہے....؟

(2) سفرِحج پر حد سے بھی زیادہ لاگت اور غیر معمولی اخراجات  بھی ایک بڑی وجہ ہے. 

جہاں پراویٹ ادارے اعلیٰ انتظامات اور بہترین سہولیات کے ساتھ تقریباََ ایک لاکھ روپے میں عمرہ کراتے ہیں، جس میں یقینا ان کا اپنا قابل اطمنان فائدہ ہوتا ہوگا . ورنا اتنے ادارے اور افراد اس کام سے منسلک کیوں ہوتے ہیں ؟ وہیں حکومتی سطح پر اسی سفر پر ناقص انتظامات اور گوناگوں مشکلات  کے باوجود حجاج کرام سے چار گُنا زائد رقم  وصول کی جاتی ہے. ماناکہ عمرے کے مقابلے میں حج کے ایام زائد اور دنیا بھر سے آنے والے کثیر تعداد عازمین کی وجہ سے کرایہ کسی حد تک بڑھ بھی جاتاہے. لیکن اصل بوجھ حکومتی سطح پر خدمات کے نام ہر مختلف شعبوں کے غیر ضروری افراد کی بھیڑ اورسہولیات کے نام پر بے فائدہ  انتظامات کی بھرمار ہے،جن سے حجاج کرام پر غیر معمولی مالی بوجھ بڑجاتاہے .

اس پر طرہ یہ ہے کہ سفرِ حج پر ملنی والی تھوڑی سی سبسٹی بھی بیک جنبشِ قلم ختم کردی گئی ہے. اس طرح کی گراں بازاری کی وجہ سے متوسط طبقے کے مسلمانوں کی دسترس سے حج جیسی عظیم عبادت نکل جاتی ہےاور برسوں کا پالاہوا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے سے رہ جاتاہے. 

ان غیر معمولی اخراجات سے گھبرا کر  بہت سے بڑے مالدار بھی  فریضۂ حج کی ادائیگی سے کَنی کترا کر سفرِ محمود کا ارادہ ہی ترک کرتے ہیں . تیسری بڑی وجہ،عوام میں عمرہ کا حج کے متبادل کے طور پر رواج پانا ہے.

پچھلے چند سالوں سے عمروں کی غیر معمولی مقبولیت نے فریضہ حج کی اہمیت کو عام مسلمانوں کی نظروں میں کم کردیا ہے. اس میں حج کے حد سے زیادہ اخراجات کاجہان بنیادی کردار ہے. وہیں عمرہ کروانے والے تجارتی اداروں کی تشہیری مہم اور طرح طرح کی آفروں کا  بھی بڑھا عمل دخل ہے. 

موجودہ دور میں ایسے صاحبِ استطاعت لوگ بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جن پر از روئے شرع حج فرض ہوتا ہے. وہ بھی عمرے سے کام چلاکر مطمئن ہوکے بیٹھ جاتے ہیں .

 یعنی " آم کے آم گٹھلیوں کے دام " کے مصداق  عمرہ کو حج کے سستے متبادل کے طور پر انجام دیکر  فریضۂ حج کی ادائیگی سے پہلوتہی کرتے اور حج کی عظیم سعادت سے زندگی بھر کیلئے محروم ہوجاتے ہیں. 

عمرہ ایک عظیم سنت ہے. اس کی عظمت فضائل و فوائد کا انکار ممکن نہیں نا ہی ایسے نادار غریب طبقے سے شکوہ روا ہے.جو حج کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن عمرے کی ادائیگی کیلئے محنت مشقت اور خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے تھوڑے سے پیسے جوڑ لیتے اور بمشکل عمرے کا خرچہ جمع کرتے ہیں . وہ اگر عمرہ ادا کرکے خانہ خدا کا دیدار، حرمین شریفین کی زیارت اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دست بستہ کھڑے ہوکے عاجزانہ گلہائے عقیدت اور درؤد و سلام کا نذرانہ پیش کرکے آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سکون اور زندگی بھر کا خواب پورا کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں .ان کا یہ عاشقانہ عمل قابلِ مبارک باد اور حج نہ کرنے کی مجبوری قابلِ فہم ہیں . 

لیکن صاحبِ ثروت مالدار طبقہ کا بخل و کنجوسی کی نفسیات کے تحت حج کے بدلے یا متبادل کے طور پر  عمرہ ادا  کرنا. سمجھ داری نہیں، بلکہ شرعی ترجیحات سے ناواقفیت کی دلیل اور ترکِ فرض کا مجرمانہ طرزِعمل ہے. اسی طرح جو حضرات بکثرت شوقیہ عمرہ کرتے رہتے ہیں، لیکن حجِ فرض ادا کرنے سے غفلت برتتے ہیں وہ ناسجھ اور فرض چھوڑنے کے گناہگار ہوجاتے ہیں.

وقت رہتے حج کی فرضیت، اہمیت، افادیت اور اسلام میں حج کے مقام و مرتبہ، فرض اور نفلی عبادت کی فرق، شرعی احکام میں فرقِ مراتب، ترتیب اور ترجیحات کا تعین  عوام میں اجاگر نا کیا گیا، تو وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ اور  حجاج کرام کی شرح مزید کم ہوسکتی ہے. 

حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک عظیم رکن ہے. اسلام کی عمارت جن مضبوط ومحکم ستونوں پر قائم ہے. حج ان میں سے ایک اہم ترین ستون ہے. ہر صاحب استطاعت مسلمان  پر زندگی میں ایک مرتبہ حج ادا کرنا فرض ہے. 

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا".(سورۃ آلِ عمران، آیت97)

 اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔کتب احادیث میں  کثیر روایات ہیں جن میں حج کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے.

عن أبي هریرۃ رضي الله عنه قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي الأعمال أفضل؟ قال: (إيمان بالله ورسوله). قيل: ثم ماذا؟ قال (جهاد في سبيل الله). قيل: ثم ماذا؟ قال: (حج مبرور)".

(صحیح بخاری، كتاب الحج)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، عرض کیا گیا: پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جد وجہد  کرنا، پھر عرض کیا گیا کہ پھر کونسا ہے؟ فرمایا کہ حج جو برائیوں سے پاک ہو۔

مشکوۃ شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: 

من حج فلم  يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه.

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب ہو تو  وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔

اسی طرح عمرہ کی بھی بڑی اہمیت و فضیلت روایات میں منقول ہیں. حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:

 عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة.

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حجِ مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔(صحيح البخاري )

ماہِ رمضان میں عمرہ کی مزید فضیلت ہے. نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ پاک ہے کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔(صحيح مسلم)

زندگی میں ایک بار عمرہ کرناسنتِ مؤکدہ  ہے، اور  جمہور کے ہاں عمرے کی کثرت مستحب ہے، عمرے  کےلیےوقت یا سال کی بھی کوئی تحدید وحدبندی نہیں ہے. 

لیکن بااین ہمہ صاحبِ استطاعت مالداروں پر حج فرض ہوتاھے.فرضیت کا انکار کرنا کفر اور جان بوجھ کر فریضۂ حج ادا نا کرنا گناہِ کبیرہ ہے. 

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)

عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من لم يمنعه من الحج حاجة ظاهرة أو سلطان جائر أو مرض حابس فمات ولم يحج فليمت إن شاء يهوديا وإن شاء نصرانيا» . رواه الدارمي". (مشکوۃ المصابیح، کتاب الحج)

جبکہ عمرہ سنت یعنی نفلی عبادت ہے. جو اپنی تمام تر اہمیت،فضیلت، برکات وثمرات کے باوجود حج کا قائمقام بن سکتا ہے. نا ہی عمرہ ادا کرنے سے فریضۂ حج سے سُبک دوشی حاصل ہو سکتی ہے. 

عبادات کےباب میں  نوافل کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے.لیکن فرائض کے تابع اور مُکمِل (کمی بیشی کی تکمیل کرنے ) کی حیثیت سے اور شرعی ترتیب و ترجیحات میں نفلی عبادات فرائض کے مقابلے میں ثانوی درجہ رکھتی ہے جیسے نفلی نماز،نفلی روزہ، نفلی صدقات وغیرہ ہیں،یہی حیثیت نفلی حج اورعمرہ کی بھی ہے. 

اللہ تعالیٰ  نے اپنے بندوں کو جن چیزوں کا مکلف بنایا ہے، وہ ایک درجے کی نہیں ہیں، بلکہ ہر عمل کا ایک  الگ درجہ و مقام ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں جن میں سب سے بلند مرتبہ لا الہ الا اللّٰہ کا ہے اور سب سے کم درجہ کا عمل راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹادینا ہے“۔ 

اس سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے بلند  اور سب سےکمتر  درجے کے علاوہ درمیان کے بھی درجات ہیں. 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أجعلتم سقایة الحاج وعمارة المسجد الحرام کمن آمن باللّٰہ والیوم الآخر وجاہد فی سبیل اللّٰہ لایستوون عند اللّٰہ﴾ (کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اورمسجد حرام کو آباد کرنے کو ایسا سمجھ لیاہے جیسے کہ کوئی شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا؟ یہ دونوں اللہ کے یہاں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے)

اس سے معلوم ہوا کہ تمام اعمال آپس میں برابر نہیں ہیں،  ہر چیز کا اپنا درجہ و مقام ہے. 

اسلام کی ترجیحات سے واقف ہونا اور ہر چیز کے درست مقام اور ترجیحی درجہ کا لحاظ رکھنا ناگزیر ہے.جس شخص کو نوافل کی مشغولیت فرائض سے محروم کردے وہ نادان اوردھوکے میں پڑا ہوا ہے.

مذہبی رہنماؤں اور علمائے کرام کی منصبی ذمہ داری ہے کہ عام مسلمانوں کو اس حوالے جانکاری فراہم کریں اور ذہن سازی کرکے خوابِ غفلت سے جگا کر شرعی ترجیحات کے موافق عمل پیرا ہونے پر تیار کریں.



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!