Ad
مضامین

رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا اجمالی خاکہ

✍️: بٹ سحران


جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور دنیا کی سب سے سچی اور پیاری شخصیت کو تلاش کرتے ہیں تو ہماری نظریں مدینہ کے اس چاند پر جا کر ٹھہر جاتی ہیں جنہیں دنیا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے جانتی ہے، وہ ہستی جن کی زندگی کا ہر لمحہ محبت اور انسانیت کا درس دیتا ہے اور جن کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ یہ کہانی کسی بادشاہ یا حکمران کی نہیں بلکہ ایک ایسے انسان کی ہے جنہوں نے دنیا کو بتایا کہ اصل طاقت تلوار میں نہیں بلکہ معاف کر دینے میں ہے اور اصل خوبصورتی چہرے میں نہیں بلکہ اچھے اخلاق میں ہوتی ہے۔ مکہ کی گرم ریت پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ کھولی تو وہ یتیم تھے، والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا لیکن اللہ نے انہیں پوری دنیا کا سہارا بنا دیا۔ بچپن ہی سے آپ اتنے سچے اور ایماندار تھے کہ مکہ کے لوگ، جو ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے تھے، وہ بھی اپنی قیمتی چیزیں آپ کے پاس رکھواتے اور آپ کو "صادق" اور "امین" یعنی سچا اور ایمانتدار کہہ کر پکارتے۔ آپ کی طبیعت میں اتنی نرمی تھی کہ کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی کا دل دکھایا۔ جب آپ پر نبوت کی ذمہ داری ڈالی گئی اور آپ نے لوگوں کو ایک اللہ اور نیکی کی طرف بلایا تو وہی لوگ جو آپ کی عزت کرتے تھے، آپ کے دشمن بن گئے، لیکن آپ کا صبر دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ان تکلیفوں کے بدلے میں آپ نے صرف دعا دی۔ وہ بوڑھی عورت جو روزانہ آپ پر کوڑا پھینکتی تھی، جب ایک دن وہ نظر نہ آئی تو آپ اس کا حال پوچھنے اس کے گھر پہنچ گئے اور اس کی بیمار پرسی کی، یہ وہ اخلاق تھا جس نے پتھر جیسے دلوں کو بھی موم کر دیا۔

طائف کا سفر یاد کیجیے جب لوگوں نے آپ کو پتھر مارے اور آپ لہولہان ہو گئے، اس وقت بھی جب فرشتے نے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو اس بستی کو تباہ کر دوں، تو رحمت اللعالمین نے فرمایا کہ نہیں، مجھے امید ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں اللہ کو پہچانیں گی، یہ وہ رحم تھا جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مکہ کے مشکل حالات کے بعد جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو یہ سفر صرف ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کا نام نہیں تھا بلکہ یہ امن اور محبت کے ایک نئے دور کی شروعات تھی۔ غارِ ثور میں جب دشمن سر پر کھڑے تھے اور یارِ غار ابوبکر صدیق گھبرا رہے تھے تو آپ نے بڑے اطمینان سے فرمایا کہ "غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے،" یہ یقین اور بھروسہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا سبق ہے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ لوگوں کے دلوں کو جوڑنا تھا، آپ نے مہاجرین اور انصار کو بھائی بھائی بنا دیا اور یہ ثابت کیا کہ خون کے رشتوں سے زیادہ مضبوط رشتہ انسانیت اور ایمان کا ہوتا ہے۔ وہاں آپ نے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جہاں کوئی بادشاہ نہیں تھا بلکہ سب برابر تھے، مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ نے عام مزدوروں کی طرح خود پتھر اٹھائے اور کبھی خود کو دوسروں سے بڑا نہیں سمجھا۔ آپ کی زندگی کا ہر دن سادگی کی ایک مثال تھا، گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو آپ بھوکے رہ لیتے مگر کبھی شکایت نہ کرتے، آپ اپنے کپڑے کو خود پیوند لگاتے، جوتے خود مرمت کرتے اور گھر کے کاموں میں اپنی ازواج کی مدد کرتے، یہ سب کر کے آپ نے دنیا کو بتایا کہ اپنا کام خود کرنا عیب نہیں بلکہ عزت کی بات ہے۔

لوگوں کے ساتھ آپ کا رویہ اتنا پیارا تھا کہ جو کوئی ایک بار مل لیتا وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا ہو جاتا، آپ ہمیشہ مسکرا کر ملتے اور سلام کرنے میں پہل کرتے، چاہے سامنے کوئی بھی ہو۔ بچوں سے آپ کو خاص محبت تھی، جب بچے کھیلتے ہوئے نظر آتے تو آپ رک جاتے، ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے، انہیں پیار کرتے اور کبھی کبھی تو انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیتے، آپ بچوں کے چھوٹے چھوٹے دکھوں کا بھی خیال رکھتے جیسے ایک بچے کے پرندے کے مرنے پر آپ اس کے پاس تعزیت کے لیے گئے تاکہ اس کا دل بہلا سکیں۔ یتیموں کے لیے آپ کا دل بہت نرم تھا، آپ فرماتے کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں، آپ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھتے اور لوگوں کو تاکید کرتے کہ ان کے ساتھ نرمی کرو۔ عورتوں کو اس زمانے میں کوئی عزت نہیں دی جاتی تھی مگر آپ نے فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیا، آپ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے اور کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، یہ عورت کی عزت کا وہ معیار تھا جو آپ نے قائم کیا۔ غلاموں اور کمزوروں کے ساتھ آپ کا سلوک ایسا تھا کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے، آپ اپنے غلام زید اور بلال سے اتنا پیار کرتے تھے کہ انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے اور وہی پہناتے جو خود پہنتے، آپ فرماتے کہ یہ تمہارے بھائی ہیں، ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالو جو وہ اٹھا نہ سکیں۔

جانوروں کے ساتھ بھی آپ کی رحمت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ایک اونٹ کو روتے دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے اس کے مالک کو ڈانٹا کہ وہ اسے بھوکا کیوں رکھتا ہے، آپ نے پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بھی جنت کی خوشخبری سنائی۔ جب مکہ فتح ہوا اور آپ فاتح بن کر اپنے شہر میں داخل ہوئے تو وہ لوگ جنہوں نے آپ کو گھر سے نکالا تھا، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے اور آپ کے پیاروں کو شہید کیا تھا، وہ سب ڈرے ہوئے سر جھکائے کھڑے تھے کہ آج ان سے بدلہ لیا جائے گا، لیکن آپ نے تاریخ کا سب سے بڑا معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ "آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو،" یہ وہ جملہ تھا جس نے نفرت کی ساری دیواریں گرا دیں اور یہ ثابت کر دیا کہ معاف کر دینا بدلہ لینے سے زیادہ بڑی بہادری ہے۔ آخری خطبے میں آپ نے انسانیت کا جو منشور دیا وہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آپ نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی برتری نہیں، سب انسان برابر ہیں اور برتری صرف اچھے عمل کی بنیاد پر ہے، آپ نے عورتوں کے حقوق، جان و مال کی حفاظت اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرنے کی تلقین کی۔ آپ کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے جس کا ہر صفحہ سچائی، امانت، دیانت اور بے لوث محبت سے لکھا ہوا ہے، آپ دنیا سے پردہ فرما گئے لیکن اپنے پیچھے اخلاق اور پیار کی ایسی خوشبو چھوڑ گئے جو قیامت تک انسانیت کے لیے سکون کا باعث رہے گی۔ آپ کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر دل میں سچائی اور محبت ہو تو انسان پوری دنیا کو بدل سکتا ہے، آپ نے نفرت کا جواب محبت سے، گالی کا جواب دعا سے اور زیادتی کا جواب معافی سے دے کر ہمیں جینے کا سلیقہ سکھایا۔



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!