Ad
افسانہ

مردہ ضمیر۔۔۔۔۔۔افسانہ

✍️:. فاضل شفیع بٹ/اکنگام،انت ناگ


موبائل نمبر:9419041002

کیا تمہارا ضمیر مر چکا تھا؟

 نہیں نہیں۔۔۔ میں دراصل ڈر گیا تھا

 اور اگر وہ مر جاتا۔۔۔۔۔

 نہیں نہیں۔۔۔ وہ مرا نہیں تھا۔۔ میں نے گاڑی کے عقب نما شیشے میں دیکھا تھا۔۔۔ وہ زمین پر گرا بھی نہیں تھا۔

 لیکن تم وہاں سے بھاگ کیوں نکلے؟

 "مجھے لگا لوگ وہاں جمع ہوں گے اور مجھے ماریں گے۔۔"

 اور جسے تم نے مارا۔۔۔ اس کا کیا؟

 "میں کہہ چکا ہوں۔۔۔ میں ڈر گیا تھا"

 معلوم ہے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس اُس بزرگ کی عمر کتنی ہوگی۔۔۔۔؟

 "نہیں نہیں۔۔۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں"

 کیا تم اندھے بھی ہو؟

 "میں نے سچ میں اس بزرگ کو دیکھا ہی نہ تھا"

 جھوٹ مت بولو۔۔۔ ذرا اپنے ضمیر کے اندر جھانکنے کی کوشش تو کر لو۔۔

 آخر تم چاہتے کیا ہو۔۔۔۔۔۔۔؟

 میں تمہارے منہ سے سچ سننا چاہتا ہوں بس۔۔

 "ٹھیک ہے۔۔ سن لو پھر،

 "اس دن میٹنگ کے بعد میں سیدھے اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ میں ہمیشہ گاڑی سست رفتار سے ہی چلانا پسند کرتا ہوں۔ معلوم نہیں اس دن میں اپنی  کار تیز رفتار سے کیوں چلا رہا تھا۔ میں اپنی دھن میں مست تھا کہ اچانک موبائل فون  بجنے لگا۔۔ میں نے جیسے ہی فون کو اٹھانا چاہا تو اچانک ایک زوردار آواز  سے میرے کان گونج اٹھے۔

 میرے ہاتھ سے موبائل فون چھوٹ گیا۔ وہ بزرگ میری کار کے سائیڈ اۤئینے سے ٹکرایا تھا۔۔ میں بہت ڈر گیا۔۔ میں نے جیسے ہی کار کو روکنا چاہا تو ایک موٹر سائیکل والے نے دور سے ہی گالیاں دینی شروع کیں۔ میرا سارا جسم پسینہ پسینہ ہونے لگا۔ میرے ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہوئے۔ یہ حادثہ دیکھ کر میں حواس باختہ ہو گیا۔ میں نے کار کو روکنا مناسب نہ سمجھا اور برق رفتاری سے وہاں سے رفوچکر ہوا۔ میری کار کا سائیڈ اۤئینہ پوری طرح سے ٹوٹ چکا تھا۔ مجھے اس بات کا پورا پورا اندیشہ تھا کہ بزرگ کو زیادہ چوٹ نہیں آئی ہوگی لیکن میں حالات سے مجبور تھا۔ میں راستہ بدل کر گھر کی جانب روانہ ہوا اور گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی  اماں جان کو پورے حادثے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وہ غصے سے آگ بگولا ہوئی اور مجھے کافی ڈانٹا۔۔ مجھے بھی اپنے کیے پر پچھتاوا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ شام تک مجھے حراست میں لیا جائے گا۔ میں اسی اضطرابی حالت میں اپنے گھر سے بھاگ نکلا اور ایک دوست کے گھر میں چھپ گیا۔ دوست نے کافی تسلی دی اور میں نے رات وہیں بسر کرنے کا فیصلہ لیا۔

 وہ رات میری زندگی کی سب سے کٹھن رات تھی۔ گہرے اندھیرے میں لپٹی رات میرے چین و سکون کو اپنے اندر گویا جذب کر چکی ہو۔ اس گہرے اندھیرے میں اچانک وہ بزرگ میری آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا۔۔ وہ خون میں لت پت تھا۔ وہ ابھی مرا نہیں تھا لیکن چوٹ بڑی گہری تھی۔۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا اور اس کے جسم سے وقفے وقفے سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ میرا سر شرم سے جھک گیا۔ میرا گناہ تلافی کے قابل نہ تھا۔ میں ایک مجرم کی طرح سر جھکائے بزرگ کے پاس گیا۔۔ مجھے محض اس کی سفید نورانی داڑھی دکھ رہی تھی۔ اچانک ایک رقت آمیز آواز میرے کانوں میں گونج اٹھی:

' بیٹا۔۔۔ غلطی انسان سے ہی سرزد ہوتی ہے۔ لیکن انسانیت نام کی کوئی چیز بھی ہے۔۔ تم آدمی تو ہو مگر شاید انسان نہیں ہو۔۔۔ کیا بھلا کسی نا تواں بزرگ کو اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر کوئی  رفوچکر ہو سکتا ہے ؟۔۔۔ میں ابھی مرا نہیں ہوں۔۔۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ تمہارا ضمیر مردہ ہے...... 

 "نہیں نہیں۔۔ مجھے اپنی غلطی کا پورا احساس ہے۔۔ مجھے معاف کر دو چچا۔۔۔"

 اندھیرا اور گہرا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ میں جب بھی سونے کی کوشش کرتا تو وہ بزرگ میرے خواب کا حصہ بن جاتا۔ میں نے اب نہ سونے کا فیصلہ کیا اور آدھی رات سے خدا کی عبادت میں مشغول ہو گیا۔۔

 میں چاہتا تھا کہ اسی طرح روز قیامت تک اندھیرا قائم رہے  تاکہ میری غلطی اسی اندھیرے میں پناہ لینے میں کامیاب ہوتی۔ صبح ہوتے ہی مجھے لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔ میرے اندر ایسے ایسے خیالات جنم لے رہے تھے جن کے بارے میں سوچ کر میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔

 دھیرے دھیرے افق پر ہلکی ہلکی سفید دودھیا روشنی بکھرنے لگی  اور میرے اندر ڈر اور تذبذب پوری طرح سرایت کرنے لگا۔ میں صبح تڑکے ہی اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا۔۔ میں بے چین تھا۔۔ بے سکوں تھا۔۔ وہ بزرگ میرے دل و دماغ پر گہری طرح حاوی ہو چکا تھا۔ میں محض اسی کے خیالوں میں غوطہ زن تھا۔ گھر کے حالات پرسکون تھے۔۔ سب لوگ اۤرام سے صبح کی چائے نوش فرما رہے تھے۔

 میں نے سارا دن اپنے کمرے میں قیدی کی طرح گذارا۔۔ نہ ہی پولیس آئی۔۔۔ نہ ہی لوگ آئے۔۔ اب مجھے یقین ہوا کہ وہ بزرگ صحیح سلامت ہوگا۔۔

 سورج غروب ہو چکا تھا۔ اندھیرا ساری بستی کو اپنی تحویل میں لے رہا تھا۔۔ میں نے دھیرے سے اپنی گاڑی نکالی اور کل والے حادثے کی جگہ پہنچ گیا۔۔ وہاں بس اللہ کا نام تھا۔ ہر سمت سناٹا تھا۔ میں گاڑی سے نیچے اتر گیا۔۔ خون کے چند دھبے زمین پر بکھرے پڑے تھے۔۔ میرا سر چکرا گیا۔۔ وہ خون کے دھبے میری طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔۔ وہ شاید مجھے پہچان گئے تھے۔۔ میں ان کا گنہگار تھا۔۔ پھر ایک آواز آئی:

' میں زندہ ہوں بیٹا۔۔۔ کیا تم بھی زندہ ہو؟'

 "میرا ضمیر سچ میں مردہ ہے۔۔ میں انسان نہیں بلکہ ایک درندہ ہوں۔" میرے اندر سے ایک اۤواز اۤئی۔

 میری آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے۔۔ مگر میں کر ہی کیا سکتا تھا کیونکہ ابھی تک میں انسان نہیں بن سکا تھا۔۔ میں بس ایک آدمی ہوں۔۔ ابھی انسان بننے میں شاید کافی وقت درکار ہے۔۔۔۔۔۔"

 اچھا۔۔۔ کیا ہی خوب کہانی بنائی ہے۔۔ یہ تو ایک افسانہ لگ رہا ہے۔۔  ایک بات سن لو:

"  تم مردہ ضمیر ہو۔۔۔ اندھے ہو۔۔۔ ایک نیچ انسان ہو۔۔۔۔ وہ بزرگ کل سے ہسپتال میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔۔۔ اور تم کہانی لکھنے میں مشغول ہو۔۔۔



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!