Ad
افسانہ

برف کا مجسمہ :.... افسانہ

✍️:.​  عبدالرشید سرشار 


​سرینگر کی یخ بستہ ہوا کھڑکی کے شگافوں  سے اندر آ رہی تھی، لیکن غلام رسول کے کمرے میں جو سردی تھی، اس کا موسم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ اپنی کوٹھری میں تکیہ سے ٹیک لگائے  چھت کی شہتیروں کو بےچینی کے ساتھ گھور رہے تھے ۔ ان کے گھٹنوں میں گنٹھیا کا درد  ایک پرانے دشمن کی طرح جاگ اٹھا تھا، جو انہیں یاد دلاتا تھا کہ اب ان کا جسم ان کے قابو میں نہیں رہا۔ چھتری کے ہینڈل کی طرح ان کی چھڑی پلنگ کے قریب رکھی ہوئی تھی،دائیں ہاتھ طاق پر اگلدان اور ٹک ٹک کرتی گھڑی تھی۔اس کا بے ترتیب اور سلوٹوں سے بھرا ہوا بستر اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ غلام رسول اس گھر کے لئے زیادہ اہم نہیں تھا۔

​ستر سالہ غلام رسول ان خوش قسمت (یا بدقسمت)  بزرگوں میں سے تھے جو اپنے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کا بیٹا الطاف، بہو اور دو پوتے پوتیاں اسی مکان کی اوپری منزل پر رہائش پزیر تھے۔ لیکن یہ چھت ایک گھر نہیں، بلکہ دو الگ الگ دنیاؤں کی سرحد بن چکی تھی۔

​صبح کا وقت تھا۔ اوپر سے قدموں کی دھمک، بچوں کے سکول جانے کی گہماگہمی اور برتنوں کے ٹکرانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ غلام رسول کی نظریں دروازے پر جمی تھیں۔ شاید آج الطاف کام پر جانے سے پہلے دو منٹ کے لیے اندر جھانکے۔ شاید پوتا اپنا نیا سکول بیگ دکھانے آ جائے۔

​دروازہ کھلا، آنے والا الطاف تھا۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی۔

ابا، میں نکل رہا ہوں۔ دیر ہو رہی ہے۔" اس کا لہجہ سپاٹ تھا، جیسے وہ کسی دیوار سے بات کر رہا ہو۔

​"بیٹا، میری دوائیاں ختم ہو گئی ہیں، اور پینشن کے کاغذات..." غلام رسول نے دھیمی آواز میں کہا۔

​الطاف نے بے صبری سے پہلو بدلا۔ "ابا، ابھی میرے پاس وقت نہیں ہے۔ شام کو دیکھیں گے، اور ہاں، پینشن کی کاپی مجھے دے دیں، بجلی کا بل جمع کروانا ہے۔"

​غلام رسول نے کانپتے ہاتھوں سے سرہانے رکھی کاپی اٹھا کر بیٹے کو دے دی۔ یہ وہ مالی استحصال تھا جس کا ذکر اخباروں میں ہوتا تھا، لیکن یہاں اس کا نام "گھر کی ضرورت" تھا۔ پینشن ان کی آخری خود مختاری تھی، جو اب ہر مہینے بیٹے کی جیب میں چلی جاتی تھی۔ الطاف کاپی لے کر مڑے بغیر چلا گیا۔

​کمرے میں پھر وہی کہا جانے والی خاموشی چھا گئی۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ تنہائی کا گیٹ وے بن جاتی ہے۔ غلام رسول کے لیے یہ گیٹ وے ایک ایسی اندھیری سرنگ بن چکا تھا جس سے نکلنے کا دوسرا  سرا ابھی تک دریافت نہیں ہوا تھا۔ وہ سرکاری افسر تھا، کبھی اس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اب اس کا سماجی رابطہ صرف اس کی پرانی یادوں تک محدود  تھا۔

​دوپہر کو انہوں نے باہر نکلنے کا سوچا۔ دھوپ نکلی تھی، شاید محلے کے کسی پرانے ساتھی سے ملاقات ہو جائے۔ اس نے اپنی چھڑی اٹھائی اور کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ گھٹنوں میں شدید ٹیس اٹھی۔ درد کی دیوار ان کے اور بیرونی دنیا کے درمیان حائل ہو گئی۔ غلام رسول واپس بستر پر گر گیا۔ جسمانی بیماری نے اسے گھر میں قید کر دیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے رپورٹ میں لکھا تھا کہ بیماریاں درد اور خوف کی دیواریں کھڑی کر دیتی ہیں۔

​شام کو گھر میں رونق لوٹ آئی۔ اوپر ٹی وی چل رہا تھا، بچوں کے قہقہے گونج رہے تھے،بچوں کے ننھیال سے لوگ آئے تھے۔

 غلام رسول کو پیاس لگی ۔ اس نے آواز دی، "کوئی ہے؟ ذرا پانی..."

​اس کی کمزور آواز اوپر کی گہماگہمی میں دب گئی۔ انہوں نے دوبارہ کوشش کی، مگر بے سود۔ یہ وہ "نفسیاتی زیادتی" تھی جس میں کوئی گالی نہیں دی جاتی تھی، کوئی دھمکی نہیں تھی، صرف ایک مکمل نظر انداز رویہ تھا۔ وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی اتنے مصروف تھے کہ نچلی منزل پر موجود وجود ان کے لیے غیر مرئی ہو چکا تھا۔

​اس کے دل میں ایک عجیب سی گھٹن ہونے لگی۔ یہ وہ اضطراب اور ڈپریشن تھا جو تنہائی کا تحفہ ہے۔ وہ سوچنے لگے کہ کیا اس کے بچے اس کی موت کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ یہ بوجھ ختم ہو؟

​تبھی اس کا چھوٹا پوتا، ہاتھ میں موبائل لیے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ کسی گیم میں مگن تھا۔

"دادا جان، یہ دیکھیں!" اس نے موبائل اس کے چہرے کے قریب کیا۔

غلام رسول نے دھندلی آنکھوں سے اس چمکتی سکرین کو دیکھا۔ وہ اس ڈیجیٹل دنیا سے ناواقف تھے، جو اس کی تنہائی کا ایک اور سبب تھی۔

"بیٹا، مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ ذرا پانی پلا دو گے۔"

​پوتے نے ایک لمحے کے لیے سکرین سے نظر ہٹائی، جیسے کوئی بہت بڑا کام کہہ دیا گیا ہو۔ "افوہ، ابھی لاتا ہوں۔" وہ موبائل پر انگلیاں چلاتا ہوا کچن کی طرف بھاگا۔

مما جی دادو(دادا)کے کمرے سے بدبو آرہی ہے،اب میں کبھی وہاں نہیں جاؤں گا۔

قیصر نے اپنی والدہ سے کہا۔

​غلام رسول خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئے۔ وہ اپنے پلنگ پر سکڑ سے گئے۔ باہر برف باری شروع ہو چکی تھی۔ سرینگر کی سڑکیں سفید ہو رہی تھیں، اور اندر، غلام رسول کا وجود۔ وہ اپنے ہی گھر میں رکھے ہوئے ایک پرانے، بے کار فرنیچر کے ٹکڑے کی طرح محسوس کر رہا تھا۔ ایک ایسا وجود جو موجود تو تھا، مگر جس کی کسی کو ضرورت نہیں تھی۔ وہ زندہ تھا، مگر ایک برف کے مجسمے کی طرح سرد، خاموش، اور آہستہ آہستہ پگھلتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالسیڈار ویریناگ

7006146071



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!