Ad
مضامین

نظریات کی نوعیت

✍️:. شہباز رشید بہورو


انسان کی زندگی کے رخ کو موڑنے کی طاقت الفاظ کے چند خوبصورت مجموعوں میں پوشیدہ ہے۔ یہ بات یقیناً غور و فکر کرنے پر نہایت حیرت انگیز محسوس ہوتی ہے، لیکن اس راز سے اکثر و بیشتر لوگ بے خبر رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ، جنہیں "عبقری" یا "genius" ہونے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، اس راز سے واقف ہوتے ہیں۔ نظریات چونکہ ایک انسان کے عقیدہ، مزاج، فطرت، طبیعت، ماحول، تعلیم و تربیت اور ذہانت و فطانت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے نظریات کی نوعیت نہایت پیچیدہ ہوتی ہے۔

مختلف اجزاء کے باہمی تعامل کے نتیجے میں نظریات کی ترکیب وجود میں آتی ہے۔ یہ ترکیب سب سے پہلے نظریہ ساز کی عملی زندگی کو متاثر کرتی ہے، اس کی عادات و اطوار، اخلاق و اقدار اور طرزِ عمل کو متعین کرتی ہے، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت انہی خطوط پر تشکیل پاتی ہے۔

اگر نظریہ ساز بچپن سے کسی خاص عقیدے کا پابند بنایا گیا ہو تو عمر کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی فطرت، مزاج و طبیعت، تعلیم و تربیت اور ذہانت و فطانت بھی اسی بنیاد پر اپنی بنیادیں استوار کرتی ہیں۔ عقیدہ دراصل مخلوق اور خالق کے درمیان تعلق کی نوعیت کی گواہی یا تصدیق ہوتی ہے، یعنی عقیدہ ایک انسان ہے۔کائنات اور اس کے بنانے والے کے متعلق فہم کی ایک صورت فراہم کرتا ہے۔

عقیدہ جو انسان کی زندگی میں ہونے والی ہر حرکت و نقل پر حاوی ہوتا ہے، اگر کسی بچے میں والدین یا سرپرستوں کی طرف سے منتقل کیا جائے تو اسے عام طور پر مذہب کہا جاتا ہے۔ انسان کی تاریخ میں مذہب سے زیادہ طاقتور کوئی عنصر نہیں جس نے انسان کو متاثر کیا ہو؛ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذہب نے تاریخ کی تشکیل کی ہے۔ تاریخ کے کسی بھی دور میں بسنے والے لوگوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تہذیب و تمدن کی صورت گری میں مذہب کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ آثارِ قدیمہ اور قدیم تہذیبوں کے مطالعے اور تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مذہب، چاہے کسی بھی شکل میں ہو، ان کی اجزائے ترکیبی میں مؤثر اور کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔

مذہب کی طاقت کا اثر نمایاں طور پر آج کے جدید معاشرے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مذہب کو عام طور پر خدا کے حوالے سے ہی سمجھا جاتا ہے، لیکن کسی نظامِ فہم میں خدا کی غیر موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ اس نظام کے ماننے والوں کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ ان کے عقیدے میں اگرچہ خدا کی جگہ خالی ہوتی ہے، اسی لیے انہیں لامذہب یا دہریہ کہا جاتا ہے، مگر پھر بھی کائنات اور خود اپنے بارے میں وہ ایک خاص طرزِ فکر رکھتے ہیں، جسے ہم عقیدہ ہی کہہ سکتے ہیں۔

اس نوعیت کا عقیدہ مشاہدات اور سماجی تجربات کی روشنی میں ہمیشہ ایک وجودی خلا کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور اسی خلا کے نتیجے میں اس عقیدے کے ماننے والے اکثر شدید ذہنی خلجان، اضطراب اور ہیجان کا شکار ہو جاتے ہیں۔

مستند مذہبی تعلیمات، فطرتِ سلیمہ اور اخلاقی تربیت کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظریہ یقیناً ایک نظریہ ساز کی شخصیت کے لیے جہاں مفید ثابت ہوتا ہے، وہیں پوری انسانیت بھی اس نظریے سے مجموعی بھلائی کے در وا ہوتے ہوئے پاتی ہے۔

منفی اور زہریلے نظریات سب سے پہلے ایک نظریہ ساز کی نفسیاتی صحت کو خراب کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نظریات کو ماننے والوں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر توازن کی خلل انگیزی کے باعث نظریہ ساز جس ڈگر پر چلتا ہے، وہ آخرکار اسے اخروی طور پر ناکامی کی بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔

غلط نظریات کا حامل شخص صرف منفی خیالات کی تشہیر کے لیے اوراق پر اوراق سیاہ کرتا ہے، تجربات سے غلط نتائج اخذ کرتا ہے اور عملی زندگی کی ایسی نظریاتی تعبیر پیش کرنے لگتا ہے جو کبھی بھی حقیقت میں ممکن نہ رہی ہو۔

جیسے چارلس ڈاروِن کو مذہب کا صحیح فہم نہ ہونا اور حقائق سے غیر واقف رہنے کی وجہ سے جس نظریے کو پیش کرنا پڑا، اس نے پوری دنیا میں ظلم و بربریت کے لیے ایک فرضی سائنٹیفک بنیاد فراہم کر دی۔ سماجی ڈاروینزم اسی نظریے کی دین ہے، جس کا پیش کرنے والا ہربرٹ اسپنسر ہے، اور جس کے فلسفے سے دنیا کے ظالم لوگوں نے مظلوموں پر ظلم ڈھانے کی یہ توجیہ پیش کی کہ 'survival of the fittest' اس دنیا کا بنیادی قانون ہے۔

سروائیول آف فٹسٹ کی بنیاد پر سماج میں عدمِ مساوات پیدا ہوئی اور کمزور افراد کو کمتر سمجھا جانے لگا، بےبسوں کو نالائق اور نااہل تصور کیا جانے لگا، اور غریبوں کو اس دنیا میں جانوروں سے بھی بدتر سمجھنے کا رویہ حکمرانوں اور بااثر لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھنے لگا۔Sigmud Freudکے مکروہ نظریات نے پوری دنیا میں شرم و حیاء کی اقدار کو جو نقصان پہنچایا، اس کا آسانی سے مشاہدہ مغربی معاشرے میں کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اثرات اب مشرقی دنیا یعنی اورینٹل ورلڈ پر بھی گہرے طور پر مرتب ہو رہے ہیں۔ باپ، بیٹی، بھائی، بہن اور دیگر خاندانی تعلقات کی جو تقدس اور احترام تھا، اسے پامال کرنے میں ان نظریات کا سب سے بڑا کردار آج کے جدید دور میں بھی نظر آتا ہے۔

جاری۔۔۔



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!