افسانہ
افسانہ :..... جیل ڈائری

7006432002
رات کی نمی دیواروں سے ٹپکتی تھی اور قاسم کی آنکھوں میں نیند کا کوئی چراغ روشن نہ تھا۔سلاخوں کے پیچھے بیٹھا وہ پچھلے دنوں کی گرد صاف کرنے کی کوشش کرتا، مگر یادیں پھر دھول کی طرح لوٹ آتی تھیں۔
جیل کی ریت اس کے قدموں میں نہیں، اس کے دل میں اتر گئی تھی۔
ہر صبح جب دروازہ چرچراتا، وہ سمجھتا شاید آزادی دستک دے رہی ہے، مگر اندر آ کر بس گنتی کا سپاہی ہوتا۔
قاسم اپنے کمرے کی ٹوٹی چھت پر لکیریں گنتا اور سوچتا کہ انسان کے خواب بھی کبھی قیدی ہو جاتے ہیں۔
کبھی کبھی دور سے کسی قیدی کا قہقہہ سنائی دیتا، جیسے اندھیرے میں کوئی چراغ بھول گیا ہو۔
رات کے سناٹے میں وہ ڈائری کھول کر لکھتا:
" آج بھی امید نے مجھے چھوڑا نہیں۔ شاید یہی میری اصل سزا ہے، اور یہی میرا سہارا بھی۔"
پھر وہ قلم بند کر کے لمبی سانس لیتا،
جیسے سلاخوں سے باہر پوری دنیا اس کے انتظار میں کھڑی ہو۔
اور وہ صرف وقت کے کھلنے کا منتظر ہو۔
sadaketmalik.blogspot.com