مضامین
میرے آنکھوں کے عدسے سے میرے دو دوستوں کی کہانی

ایک زمانے میں ایک شہر کی گلیوں میں ایک نوجوان رہتا تھا۔ اس کیآنکھوں میں علم کی چمک جھلکتی تھی، جیسے صبح کی پہلی کرن سمندر پر پڑتی ہے، اور دل میں پاکیزگی کا نور تھا جو رات کی تنہائی میں بھی روشنی دیتا رہتا تھا۔ وہ کمپیوٹر کے جادوئی جہان میں ماسٹرز کر چکا تھا، جہاں کوڈنگ کے لئے اس کی انگلیاں رقص کرتی تھیں۔ پھر صحافت کی دنیا میں قدم رکھا، جہاں الفاظ کو تلوار بنا کر سچ کی جنگ لڑی جائے، اور مختلف کورسز کیے، ہر ایک میں اپنی روح کا ایک حصہ چھوڑ آیا۔ مگر قسمت نے اسے بے روزگاری کی آزمائش دی، جیسے کوئی طوفان سمندری جہاز کو آزماتا ہے۔ للہیت یہ کہ بینک کی نوکری آئی، سودی دروازے کھلے، مگر اس نے سر جھکا کر انکار کر دیا۔ حلال کی راہ پر چلنے کا عزم تھا، حرام کی طرف نگاہ بھی نہ اٹھائی۔ کبھی حرام کمایا نہیں، کبھی حرام کھایا نہیں۔ اذان پر اسکی آنکھ کھل جاتیں، اور رات کو اللہ سے راز و نیاز میں آنسو بہاتا، جیسے کوئی بچہ ماں سے شکوہ کرتا ہو۔
غصہ اس میں تیز تھا، جیسے تلوار کی دھار جو جلدی نکل آتی ہے، اور اسکا جذباتی پن کبھی کاموں میں توازن کھو دیتا، جیسے ہوا میں اڑتی پتنگ کی ڈور ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ مگر ان سب کے باوجود اس کا دل موم کی طرح نرم تھا، سورج کی طرح گرم، جو دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھتا۔ حسّاس طبعیت ایسی کہ ہوا کا جھونکا بھی محسوس کر لیتا، مگر کبھی کسی کو نقصان نہ پہنچاتا، چاہے جذبات کی لہر کتنی ہی بلند ہو۔
والدین سے محبت اس کی ایسی تھی جیسے سایہ بان گرمی کی شدت میں ٹھنڈک دیتا ہو۔ ماں کی ہر بات پر کان دھرتا، باپ کی نصیحت کو دل میں سمو لیتا، جیسے کوئی باغبان اپنے پودوں کو پانی دیتا ہو۔ بھائیوں کا ساتھی، بیوی اور بچوں کا قلعہ۔ بچوں کی ہنسی اس کی زندگی کی موسیقی تھی، جو گھر کی دیواروں میں گونجتی رہتی، اور بیوی کی مسکراہٹ اس کی جنت، جو ہر مشکل میں روشنی بن جاتی۔ دوستی نبھاتا جیسے کوئی موتیوں کی مالا گوندھتا ہو، ہر موتی کو احتیاط سے جوڑتا۔ ایک دوست نے دھوکہ دیا، دل میں زخم لگا، غصے میں سخت الفاظ نکل گئے جیسے بادل پھٹ پڑیں۔ مگر کینہ نہ رکھا، جیسے دریا گندگی کو بہا لے جاتا ہے ویسے ہی اس کا دل صاف ہو جاتا، آنکھوں میں آنسو اور دل میں معافی کا پھول کھل جاتا۔
کسی کو تعلیمی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ رہنمائی کرتا، اچھے مشوروں سے نوازتا جیسے کوئی استاد اپنے شاگرد کو خواب دکھاتا ہو۔ ایک نوجوان کو دیکھا، کیریئر کے بارے میں الجھن تھی، آنکھوں میں خوف اور دل میں بے چینی خود تنگی میں تھا، مگر گھنٹوں بیٹھ کر راستہ بتایا، جیسے کوئی مسافر دوسرے کو راستہ دکھاتا ہو۔ ایک طالب علم کو امتحان کی تیاری میں مدد کی، کتابیں دیں، نوٹس بنوائے، راتوں کو جاگ کر سمجھایا۔ پڑوسی کے بچے کی تعلیم میں اپنی بچت دے دی، جیسے کوئی کسان اپنی فصل دوسروں کو بانٹ دے۔ خود کی تنگی کو بھول کر دوسروں کی آنکھوں میں روشنی بھر دیتا، یہ اس کی حساسیت تھی جو چھپ کر نیکی کرتی، جیسے رات کا چاند خاموشی سے روشنی بانٹتا ہے۔
زندگی کی راہوں میں بھٹکتا رہا، جیسے کوئی پرندہ آسمان میں اڑتا ہو، مگر ہمت نہ ہاری، جیسے ستارے رات میں بھی چمکتے ہیں۔ بلاگ لکھتا، خیالات بانٹتا جیسے کوئی راوی اپنی کہانی سناتا ہو۔ غصے پر قابو سیکھتا، جذبات کو سنبھالتا، ہر آنسو کے بدلے ایک دعا مانگتا۔ فیملی اس کی طاقت تھی، نماز اس کا سہارا، جو ہر مشکل میں ڈھال بن جاتی۔
اس کی کہانی ایک سفر تھی، جہاں ہر موڑ پر محبت، وفاداری اور پاک دل جھلکتا۔ وہ اب بھی تلاش میں تھا، روزگار کی، خوشی کی، مگر نیت صاف اور امید زندہ، دل میں اللہ کا نام اور آنکھوں میں خوابوں کی نمی۔
نام بتانا ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ میرا دوست حقیقت میں انسانی وجود رکھتا ہے۔ جیسے انسانی کہکشاں میں ایک گلوری کا نشان ہو ۔
☆☆☆☆☆☆☆☆
ایک زمانے میں، جہاں پہاڑ آسمان سے سرگوشیاں کرتے تھے اور دریا راتوں کو ستاروں کی باتیں سناتے تھے، ایک نوجوان آیا۔ کتابوں کا وہ عالم نہ تھا، نہ اس کی زبان میں کتابی الفاظ کی چاشنی تھی، مگر اس کی محنت ایسی تھی کہ پتھر بھی پگھل جائیں۔ دن بھر دھاڑی مزدوری کرتا، ہاتھوں میں چھالے پڑتے تو بھی مسکراہٹ نہ چھوڑتا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی، دل میں خلوص کا سمندر موجزن تھا – ایسا خلوص کہ الف لیلیٰ کی کہانیوں میں بھی اس کی مثال نہ ملے۔
اس کا دل صاف تھا جیسے صبح کی پہلی کرن، جس پر سائے کی دھول بھی نہ ٹھہرے۔ وہ محبت کا پیکر تھا، ہر سانس میں خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا۔ بچوں کے لئے بچہ بن جاتا، بوڑھوں کی لاٹھی بن جاتا، مسافروں کو سایہ دیتا، اور غریبوں کے گھر میں امید کا چراغ جلاتا۔ جب کووڈ کی وبا نے دنیا کو گھیر لیا، گلیاں سنسان ہوئیں، دروازے بند ہوئے تو اس نے گھر گھر تک دوائی پہنچائیں ، راشن کے بوجھ اٹھاتا، مریضوں کے پاس بیٹھ کر حوصلہ دیتا۔ خود احتیاط کرتا مگر ماسک لگانے میں کوتاہی کرتا تاکہ آخری سانس لینے والے کو اندرونی نتہائی کا احساس نہ ہو ، ماسک دوسروں کو پہناتا، اپنا کھانا بانٹتا مگر کسی کو بھوکا نہ سونے دیتا۔ اس کی محنت سے زمین نے سونا اگایا، خلوص نے دلوں کو جوڑا، اور خدمت نے اسے افسانوں کا ہیرو بنا دیا۔ لوگ کہتے ہیں، ایسا دوست ملے تو زندگی جنت بن جائے۔
نام بتانا ضروری نہیں ہے ۔ لیکن یہ میرا دوست حقیقت میں انسانی وجود رکھتا ہے ۔ جیسے وجودِ حقیقی میں کسی نے اچھے انسان کو منتخب کرلیا ہو ۔