Ad
افسانہ

گارنٹر :..... افسانہ

✍️:. ​عبدالرشید سرشار



​مصعب اور آکاش دو دوست نہیں، بلکہ یک جان  دو قالب تھے۔ لوگ  ان کی گہری دوستی پر رشک کرتے تھے اور ان کا حال یہ تھا کہ "ایک کو کانٹا چُبھتا تو دوسرے کو تکلیف ہوتی"۔

​بڑے ہوئے، تو ان کی دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

​مصعب  سیدھا سادا، محنتی جوان جس نے  پلمبرنگ میں ڈپلوما کیا۔ تین سال کیا لگائے کہ اس کی کایا ہی بدل گئی فارم بھرا امتحان میں پاس ہوا اور جونیئر انجینئر بن گیا۔

 اچھی تنخواہ،عالی شان مکان ، ڈیوٹی کاجذبہ اور عزت کی زندگی۔

      ​دوسری طرف آکاش ہے، آزاد اور لاابالی طبیعت کا مالک۔ بارھویں کے بعد کالج میں داخلہ لیا ۔باپ کی چھتر چھایا میں بی ، اے کی ڈگری بستے میں ڈال کر گھومتا پھرتا، جیسے  ہمالیہ کی کوئی اونچی چوٹی سر کی ہو۔ باپ کی دولت، عارضی پرسکون نیند کا انتظام تھی۔

 شاہانہ انداز میں ​شادی ہوئی اور بالی ووڈ کے فلمی ستاروں کی طرح خوب موج مستی کی۔مگر یہ چہل پہل چودھویں کی چاند ثابت ہوئی۔شادی  کیا ہوئی کہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ 

پاپا مجھے دس ہزار روپے چاہئیں۔تھوڑا آؤٹنگ کیلے زرینہ کے ساتھ جانا ہے، کچھ شاپنگ کرینگے، اور زرینہ کے میکے بھی جانا ہے۔

آکاش نے اپنے باپ سے سوال کیا۔

بیٹا میں نے ایک ایک پیسہ ایمانداری کے ساتھ کمایا ہے لہذا آپ کا سوال نامناسب ہے۔

محنت کے ساتھ کماؤ ، عزت کے ساتھ خرچ کرو کب تک بیساکھیوں کے سہارے چلو گے۔

  مرد کماؤ نہ ہو تو سزا کی حقدار عورت قرار پائی۔

​یہ میری غیرت کا سوال ہے، آکاش نے اعلان کیا اور چولہا الگ کر لیا۔ بظاہر عزت کی حفاظت، مگر حقیقت میں، دو انسانوں کو بھوکا مرنے کے لیے آزادی دے دی۔

​جب جیب خالی ہوئی تو غیرت کے غبارے سے  ہوا نکل گئی۔ 

مکھیاں مارنے سے بہتر ہے کہ ایک چھوٹی سی دکان کھولی جائے ،آکاش نے جھجھکتے ہوئے زرینہ سے کہا۔

جو من میں آئے کرو مگر کچھ نہ کچھ کماؤ، اس نے ناگواری کے ساتھ جواب دیا۔

صاحبزادے کو اب آٹے چاول کے بھاؤ معلوم پڑے تھے۔ 

دکان تو کھولی مگر کرایہ اتنا کہ دکان چلنے سے پہلے ہی دم توڑ جائے۔

آکاش کو کسی سیانے نے مشورہ دیا: 

"سرکاری نوکری نہیں تو، بینک سے قرض لے لو۔ دس پندرہ لاکھ۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ۔"

​آکاش کی آنکھوں میں چمک آئی۔ یہ واحد راستہ تھا، عزت کی زندگی کو واپس پانے کا۔ لہٰذا  خود روزگار اسکیم کا فارم بھرا۔ 

 بینک نے ایک گارنٹر مانگا۔ ایسا گارنٹر جو سرکاری نوکری کرتا ہو۔

لہذا ​وہ مصعب کے پاس گیا۔ بغیر کسی تمہید کے، اپنی ساری رام کہانی اس کے سامنے اُلٹ دی۔

​مصعب کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی، وہی پرانی، بچپنے کی محبت بھری مسکراہٹ۔

​"یار، تو بھی کیا یاد کرے گا!

کہو تو میں تمہارے لئے آسمان سے تارے توڑ لاؤں۔

 خیر، کوئی مسئلہ نہیں، میں تیرا گارنٹر بن جاتا ہوں۔" تو تو بچپن کا یار ہے۔

​مصعب نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔

دونوں بینک چلے گئے۔ مصعب نے ضروری کاغذات پر  آنکھیں بند کرکے دستخط کیے، اور اس کے لیے قرض کا دروازہ کھول دیا۔ چلتے چلتے اتنا ضرور کہا کہ آکاش تو نے وقت کی قدر نہیں کی ورنہ نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔

آکاش نے ​ایک گاڑی بھی لی  اور وہ اس میں فراٹیں بھرتا، عیش کرتا، ہاتھ میں فضول خرچی کے لیے بینک کا پیسہ تھا۔ 

ایک نوکر بھی رکھ لیا۔

 آکاش سیماب طبیعت کا مالک تھا۔ بڑا ہی یار باش۔عیش کرنا اور کرانا اس کا مشغلہ تھا۔گاڑی کی قسط،دکان کی قسط،نوکر کی تنخواہ،گاڑی میں تیل،بجلی بل اور گھر کا خرچہ!

یہ سب تبھی ممکن تھا جب کوئی محنت کے ساتھ دکان سنبھالتا ،جب کہ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔دکان نوکر کے بھروسے ۔۔۔۔۔اور اس نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔

​پھر کھیل شروع ہوا۔ بینک نے پہلے پہل  آکاش کو فہمائش کی پھر سخت سست کہا کہ وقت پر قسطیں بھرو مگر  اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لہذا بینک والوں نے اسے چھوڑ دیا اور سیدھا مصعب کے گریبان پر ہاتھ ڈالا۔

​بیس پچیس لاکھ کا قرض۔

​مصعب کی تنخواہ سے ماہانہ رقم کٹنے لگی۔

مصعب آپ پریشان کیوں ہیں؟

اس کی بیوی نے بڑے رومانوی انداز میں اس سے پوچھا۔

کچھ نہیں جانو،میں ٹھیک ہوں۔

نہیں نہیں کچھ مدت سے آپ کی صحت بھی ویسی نہیں ہے۔آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں۔

جانو دراصل میں آکاش کا گارنٹر ہوں اور وہ قسط بھرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے

اب تو واقعی جنت نما گھر  جہنم  میں تبدیل ہو گیا۔ بیوی روز جھگڑتی۔ 

"تمہاری دوستی نے ہمیں کنگال کر دیا!" کبھی سوچا بھی کہ ہمارے بچوں کا کیا بنے گا۔

مصعب، آکاش کے باپ کے پاس گیا۔ مگر وہ خود بھی دودھ کا جلا تھا لہذا  وہاں سے کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ 

آکاش کی دکان میں جھانکا تو دیکھا کہ وہاں خدا ہی حافظ ہے ۔

​دوستی کا زہر اب رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ بینک والوں کے تقاضے، گھر کی لڑائی، اور سر پر بیس لاکھ کا قرض۔ یہ بوجھ  اس جونیئر انجینئر کی زندگی پر پہاڑ بن کر گرا۔لاکھ درخواستیں دیں،عدالت چلا گیا مگر بینک کے سامنے ایک نہ چلی۔

​ایک شام،

آخرکار وہ دن آہی گیا بینک کے تقاضوں،بیوی کے جھگڑوں اور آکاش کی سرد مہری سے تنگ آ کر، مصعب نے ہمت ہاری۔ ایک سٹروک۔ اور قصہ ختم۔

​مصیبت نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ مصعب کی گریجویٹی، اس کی جی، پی فنڈ، اس کی لیو سیلری غرض  زندگی بھر کی کمائی، وہ رقم سیدھے اس کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوئی، جہاں سے بینک نے پائی پائی کا قرضہ چکایا اور مصعب کے گھر والے کشکول لے کر سڑک پر آگئے۔​۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالسیڈار ویریناگ

7006146071



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!