مضامین
فاضل شفیع کا ادبی سفر: "گردِ شبِ خیال" سے "ورچیویلیٹی" تک

فاضل شفیع کا اردو زبان سے پہلا عشق، یعنی ان کی پہلی کتاب "گردِ شبِ خیال"، عشقِ ناکام ثابت نہ ہوا، اور جتنے بھی کم و قلیل قارئین کی آنکھوں سے گزرا، ان کی چشمِ نیم باز کو مخمور کیے بغیر نہ رہا، اور ان کے سر چڑھ کر بولنے لگا۔ فاضل صاحب نے انتہائی کم وقت میں اب اپنا دوسرا افسانوی مجموعہ "ورچیویلیٹی" شائع کیا ہے، اور ایک سچے عاشق کا میڈل حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن عشق کا سفر کوئی آسان سفر نہیں۔ یہ ایک آگ کا دریا ہے، جسے پار کرنا ہوتا ہے۔ مگر جہاں عشق صادق ہو اور محبوب پر جان چھڑکنے کی آرزو ہو، وہاں اپنے حصے کے چھوٹے دریا عبور ہو ہی جاتے ہیں۔
میں نے اس افسانوی مجموعے میں فاضل کی بھرپور رہنمائی کی ہے، اور یہ محسوس کیا ہے کہ دھیرے دھیرے فاضل اردو زبان پر بہتر گرفت حاصل کر رہے ہیں۔ آج تک انہوں نے جتنا بھی لکھا ہے، بادی النظر میں اچھا لگتا ہے۔ فاضل کی سب سے اچھی بات ان کا تحمل اور ادب کی دنیا میں اپنے بڑوں اور اساتذہ کے تئیں تواضع ہے۔ یہ ایک صفت آج کے مصنوعی اور نقلی دورِ ادب میں نایاب ہے۔ فاضل ہر لفظ پر مشورہ لیتے ہیں، اور تصحیح کے ہر مرحلے کو دل و جان سے، بغیر کسی نفسی آمیزش کے، قبول کرتے ہیں۔ اسی ایجاب و قبول کی بدولت وہ اپنے ادبی سفر کے زینے سلیقے سے طے کر رہے ہیں۔
"گردِ شبِ خیال" کی خمیر سے ہی "ورچیویلیٹی" کے رنگوں کو روشن کیا گیا ہے۔ مجموعے میں شامل افسانوں میں وہی زندگی کی تلخیاں، خوابوں کی نرمی، اور انسانی جذبات کی گہرائی ایک ایسے انداز میں ابھاری گئی ہے جو قاری کو ایک ہلکی مستی کے رقص میں محو کر دیتی ہے۔ پہلی کتاب کی کامیابی نے انہیں اعتماد دیا، مگر یہ دوسرا مجموعہ ان کی محنت اور لگن کا ثمر ہے۔ اردو افسانے کی روایت میں ایک سادہ مگر مخلص کوشش جاری ہے اور رہے گی۔
فاضل کی زبان ابھی پختہ ہو رہی ہے۔ "ورچیویلیٹی" کے صفحات پلٹتے ہوئے قارئین کو ضرور محسوس ہوگا کہ ادب میں سچائی اور تخیل کا امتزاج اب بھی موجود ہے، اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ امید ہے کہ فاضل شفیع کے دوست اور احباب فاضل کی اس نئی ادبی کاوش کو کھلے دل سے قبول کریں گے اور سراہیں گے۔