مضامین
عزت اور خودداری کا زوال

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ انسان کی سب سے مقدس مگر نازک چیز کون سی ہے؟ سونا، دولت یا مرتبہ نہیں، بلکہ وہ چیز عزت اور عزتِ نفس ہے۔ اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کی زندگی اجڑ جاتی ہے۔ سب سے پہلے بنیادی رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ دوست اجنبی بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے بچے بھی اپنے والدین کے سائے سے دور ہو جاتے ہیں۔ جو بھی اس دور سے گزرتا ہے، اس کے اندر ایک خالی پن رہ جاتا ہے۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ میرا ذاتی تجربہ ہے، جسے میں نوجوان نسل کے لیے ایک تحفہ سمجھ کر قلم بند کر رہا ہوں۔ یہ وہ زخم ہیں جو ہزار زبانوں سے بھی بیان نہیں ہو سکتے۔
میں نے سمجھا تھا کہ تربیت، علم اور انسانیت کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کا بھروسہ اپنے ایمان کی طرح سنبھالا جائے۔ جو بھی آپ کے پاس آئے، اسے اعتبار دیا جائے۔ دکھے دلوں، کمزور جسموں، ٹوٹے خوابوں اور بکھرے لوگوں کی آہیں سنی جائیں۔ ان کی خاموش نگاہوں، نم آنکھوں اور دبے کندھوں کو سمجھا جائے۔ یہ لوگ گلیوں، راستوں اور سوشل میڈیا پر آپ کے آس پاس ہیں۔ یہ جسم نہیں، بلکہ دکھ، پریشانی اور جدوجہد میں لپٹے وجود ہیں، جو اپنی خاموشی سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کی پکار ہوتی ہے، "اے دردِ دل رکھنے والے انسان، مجھے سمجھو، مجھے تلاش کرو۔"
عزت اور عزتِ نفس انہیں سوال کرنے نہیں دیتی۔ انہیں صرف چند لمحوں کے لیے آپ کا کندھا، آپ کی بات، آپ کی توجہ چاہیے۔ ان کے زخموں کا علاج آپ کے پاس ہے، مگر وہ کہہ نہیں سکتے۔
میں نے زندگی میں یہ سوال اپنے دل سے کیے۔ اپنے تجربات سے سیکھا کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور ہر نم آنکھ مظلوم نہیں۔ کئی بار معصوم چہروں کے پیچھے موقع پرست اور ظالم چھپے ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے جذبے اور درد کو ہتھیار بنا کر اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آپ ان کے لیے اپنا وقت، عزت اور وقار قربان کرتے ہیں، مگر وہ آپ کو دھوکہ دے کر جشن مناتے ہیں۔
ایسے لوگ آپ کی پہچان پر انگلی اٹھانے کا موقع دوسروں کو دیتے ہیں۔ میں برسوں سے اس تماشے کو دیکھ رہا ہوں۔ اس نے مجھے اندر سے بدل دیا۔ اس سفر میں میں نے بہت کچھ کھو دیا۔ کبھی ایسا وقت بھی آیا جب زندگی کی چیزیں بیکار لگنے لگیں اور موت آسان۔ مگر سمجھنے کی پیاس نے مجھے بچا لیا۔ میں نے عزم کیا کہ جب تک سیکھ نہ لوں، ہار نہیں مانوں گا۔
میں نے سیکھا کہ کسی کے گلے لگنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ دل جیتنا چاہتا ہے یا خنجر مارنا۔ کسی کی تعریف کے پیچھے ارادہ سمجھنا چاہیے۔ کسی کی خیریت پوچھنے میں نیت پہچاننی چاہیے۔ یہ دنیا ایک جال ہے۔ اگر آپ نے وقت پر لہجہ نہ پہچانا تو قیمت آپ کو اپنی عزت، کردار اور خاندان سے چکانی ہوگی۔
میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص میری طرح دیواروں کے ساتھ اکیلا رہ جائے۔ یہ تحریر کوئی مضمون نہیں، بلکہ ایک پکار ہے۔ ہر دھوکے کھائے دل کی صدا۔ میں نے ان لمحوں کو یاد کر کے لکھا ہے جب دل چیخا مگر زبان خاموش رہی۔
آج کل دھوکہ عام بات بن گئی ہے، مگر جس نے تمہاری مجبوری کو ایمان سمجھا ہو، اس کا دل ٹوٹنے پر درد شدید ہوتا ہے۔ یہ سازش اور مفاد نسلوں کو برباد کر دیتے ہیں۔ ایسے انسان کے پاس بچوں کی آنکھوں کے سوالوں کا جواب نہیں رہتا۔ بس ایک احساس رہ جاتا ہے، "میں نے ایسا کیا کیا تھا؟"
سوال یہ ہے، کیا انسان بیرونی فیصلوں سے متاثر ہوتا ہے؟ ہاں، ضرور ہوتا ہے۔ لیکن یاد رکھو، عزت وہ اندرونی روشنی ہے جو کوئی چھین نہیں سکتا۔
میں نے دونوں حالتوں کا تجربہ کیا۔ جب میرے سامنے بے عزتی ہوئی مگر دل میں ایمان باقی تھا۔ یہ تضاد مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب سچے لوگ دوبارہ یقین کریں گے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
میرا سوال زمانے سے ہے:
کون بنے گا وہ باپ جو اپنے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری خود لے؟
کون بنے گا وہ نوجوان جو نظام کو پڑھ کر انصاف کے لیے لڑے؟
کون بنے گی وہ ماں جو اپنے دودھ کو سچائی اور امانت کا نشان بنائے؟
کون بنے گا وہ استاد جو بھولا ہوا سبق یاد دلائے؟
کون بنے گا وہ سیاستدان جو وعدہ کرے کہ قیادت کے ساتھ دیانت بھی نبھائے گا؟
میرا آخری پیغام یہ ہے:
اپنی عزت کا محافظ خود بنو۔
اپنے دل کو خود سنبھالو۔
جب تک کوئی امید نظر آتی ہے، مضبوط رہو۔
اللہ حافظ۔