مضامین
ہجوم وقت کے خلاف ایک سرگوشی

میں نے کیا کیا نہ کھویا، کس طرح میں نے ہر چیز صرف نظر کی، میرے گرد ہونے والی حرکات کو میں نے کیوں یوں ہی دیکھا، میرے سامنے لگی وقت کی سوئیاں مجھ سے شکوہ گیر ہیں کہ دیکھ وقت کو، وقت کو دکھانے اور دیکھنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ دائیں جانب میرا کتاب گھر، خود کو ہواؤں سے وجود میں آنے والے چھوٹے چھوٹے گرد کے ذرّات سے آلودہ کر کے با آواز بلند کہہ رہا ہے وقت لگتا ہے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے دکھنے والے ننھے ننھے پھول نالاں ہیں کہ دیکھ عمر لگتی ہے، مرتے ہیں پھر جیتے ہیں، عمر لگتی ہے، دیکھ وقت لگتا ہے۔
میں، آنکھوں پر پٹی باندھا ہوا انسان نما گھوڑا تیز رفتار سے دوڑتا رہا، مجھے ادراک نہ تھا تیز رفتار سے ہر چیز کو دیکھنا حقیقت کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔ پھر شاعروں کی کلیات نے مجھے مشورہ دیا کہ محبت کر لو، شاید محبوب کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تیرا وقت تھم جائے، تجھے حقیقت کا ادراک ہو جائے، تجھے آنکھ کی پتلی سے کائنات کا خوب صورت منظر دیکھ کر قرار عطا ہو جائے، تجھے پھول کی طرف دیکھ کر زندگی کی حقیقت کا ادراک ہو جائے، تجھے دکھ جائے کہ وقت لگتا ہے۔ مخلص شاعر کی مخلص رائے دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے فقط لفظ کی حد تک اہمیت کی حامل ہوئی۔ شاعر ہار گیا، مخلص رائے کا وجود رنجیدہ ہوا، لیکن نہیں، کہاں، میں ہار گیا۔ مجھ سے میری آزادی چھین لی گئی، مجھے غلامی پر مجبور کیا گیا، میں کسی کی مادی خوشی کے لیے اپنی حقیقی نشاط کی قربانی دے رہا ہوں۔ زمانے نے کہا جہاں زمانہ چلے وہی چلو، مجھ سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ تو ناکام ہو جائے گا۔ کاش میں ناکام ہوتا، کاش میں پیچھے نہ چلتا، کاش میں منیر نیازی کے شعر کا مصداق ہوتا کہ
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کاش میں قدرت کی تعمیر شدہ رفتار کو عملاً قبول کرتا۔
مادی دور کو میرے نظریات اور خیالات سے چاہے کتنا ہی اختلاف ہو، میں پھر بھی کہوں گا مادیت ظاہر میں حسین لیکن باطن سے خوشیوں کا قاتل ہے، حقیقت کا قاتل ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں زندگی کے فیصلے اس حالت میں کروں کہ مجھے زندگی کا مدعا اور مطلب اور مقصد پتا ہی نہ ہو۔ جو شخص اپنی اور اپنے دور کی حقیقت سے ناواقف ہے دراصل دور کا غلام ہے۔
بقول اقبال
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ