Ad
ادب

"شریفوں کا محلہ" — زوالِ اخلاقیات کا آئینہ

✍️:. محمد رفیق راتھر /بارہمولہ 


اقتباس:

"جب شرافت صرف نام رہ جائے اور ضمیر مصلحتوں میں دب جائے، تب محلہ ایک منظر نہیں بلکہ ایک چبھتا ہوا المیہ بن جاتا ہے — حسین ظفر اسی المیے کے راوی ہیں۔"

کتاب "شریفوں کا محلہ" حسین ظفر کی تخلیقی بصیرت اور سماجی مشاہدے کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اس میں عام محلے کی زندگی، انسانی رشتوں کی نزاکت اور معاشرتی تضادات کو نہایت سادہ مگر مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ظفر نے معمولی دکھنے والے کرداروں کے ذریعے ایک بڑی سماجی تصویر کھینچی ہے جو قاری کو ہنساتی بھی ہے اور سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ یہ کتاب ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے محض تفریح نہیں بلکہ ہمارے بدلتے سماجی رویوں کا آئینہ بھی ہے۔

آج ہی میں نے اپنے عزیز دوست حسین ظفر کی تازہ تصنیف "شریفوں کا محلہ" کا مطالعہ مکمل کیا۔ حسین ظفر، جنہیں میں پیار سے "ظفر" بلاتا ہوں، نہایت بااخلاق، اعلیٰ کردار، نرم دل اور یاروں کے یار انسان ہیں۔ ان کی گفتگو میں شائستگی، لہجے میں سچائی اور رویے میں خلوص جھلکتا ہے۔ مگر ان کی یہ کتاب ظاہر کرتی ہے کہ ان کے اندر ایک گہرا مشاہدہ، فکری پختگی، ادبی حساسیت اور قومی درد چھپا ہے۔

یہ کتاب حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے اور ادبی حلقوں میں تہلکہ مچا چکی ہے۔اس مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی عمدہ تحریر، سادہ اسلوب اور سماجی مسائل کو نہایت آسان مگر مؤثر انداز میں بیان کرنا ہے۔

لیکن میری رائے میں ظفر کی اپنی شخصیت، ان کا دردِ دل، اور سماجی معاملات کے تئیں ان کی گہری حساسیت نے بھی اس کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ان کے قلم میں خلوص ہے، درد ہے، اور انسانیت کے کھو جانے پر ایک صادقانہ بےچینی۔

واقعی، "شریفوں کا محلہ" ایک انمول سماجی، تہذیبی اور ثقافتی سرمایہ ہے — ایسا ادبی آئینہ جس میں ہمارا آج کا پورا معاشرہ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔

کتاب ایک پرانے، وقت کی گرد میں دبی بستی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ دروازوں پر جمی گرد، سنسان گلیاں اور چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں اس عہد کی علامت ہیں جہاں سچائی کمزور اور منافقت طاقتور ہو چکی ہے۔ حسین ظفر نے اس فضا کو نہایت سادگی مگر بےپناہ اثر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کا قلم بتاتا ہے کہ کہانی صرف کرداروں کی نہیں، بلکہ ہمارے اپنے عہد کی داستان ہے — وہ عہد جس میں ضمیر کی آواز دب چکی ہے اور مصلحتیں اصولوں پر غالب آ چکی ہیں۔

یہ محلہ دراصل ہمارے سماج کا ایک چھوٹا سا ماڈل ہے۔ یہاں امام صاحب ہیں جو منبر پر تقویٰ کے درس دیتے ہیں مگر خود مفاد کے اسیر ہیں۔ یہاں سیاست دان ہیں جو عوامی خدمت کے نعرے لگاتے ہیں مگر نیت میں خودغرضی چھپی ہے۔ اور ایک عام آدمی ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش رہنا سیکھ چکا ہے۔

کتاب میں ظفر نے ان کرداروں کو اس مہارت سے تراشا ہے کہ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود ان گلیوں میں چل رہا ہو، ان چہروں کو دیکھ رہا ہو اور ان کی دوہری زندگی کو محسوس کر رہا ہو۔

مصنف نے اخلاقی زوال اور انسانی کمزوریوں کو بڑی سادگی سے بیان کیا ہے۔ زبان شستہ، عام فہم اور دل کو چھو لینے والی ہے۔ ان کے جملوں میں مصنوعی فلسفہ نہیں، زندگی کی سچائی ہے۔ کہیں طنز کی نرم چبھن ہے، کہیں درد کا گہرا لمس — یہی امتزاج اس کتاب کو محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک عہد کی گواہی بنا دیتا ہے۔

"شریفوں کا محلہ" پڑھتے ہوئے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ اصل تباہی بندوق یا طاقت سے نہیں بلکہ ضمیر کی موت سے شروع ہوتی ہے۔ معاشرتی بگاڑ اُس وقت جنم لیتا ہے جب ہم سچ بولنے سے ڈرنے لگتے ہیں اور مصلحتوں کو زندگی کا شیوہ بنا لیتے ہیں۔ ظفر کا قلم اس خوف کو توڑتا ہے اور ہمیں ہمارے ہی چہرے کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے — ایسا چہرہ جسے ہم برسوں سے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔

کتاب ختم ہو جاتی ہے، مگر اس کے کردار دل سے نہیں جاتے۔ ان کی خاموشیاں دیر تک گونجتی رہتی ہیں۔ ہر صفحے کے بعد ایک سوال جاگتا ہے —کیا ہم واقعی وہی “شرفا” ہیں جن پر کبھی فخر کیا جاتا تھا، یا ہم نے شرافت کو محض نام کی تختی بنا دیا ہے؟

حسین ظفر نے اس کتاب کے ذریعے ہمیں سوچنے، شرمانے اور شاید بدلنے پر مجبور کیا ہے۔انہوں نے وعظ نہیں کیا، مگر اپنی کہانی کے لفظوں سے وہ کام کر دکھایا جو شاید منبر یا ادارے نہ کر سکیں —انہوں نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے، اور آئینہ ہمیشہ سچ کہتا ہے۔

یہ کتاب ان سب کے لیے ہے جو معاشرتی زوال پر فکر مند ہیں، جو اپنے اندر کھوئی ہوئی انسانیت تلاش کرنا چاہتے ہیں، اور جو سچ کی تلاش میں خاموش مگر بیدار دل رکھتے ہیں۔

بحیثیتِ مجموعی یہ ایک قیمتی ادبی سرمایہ ہے، اور مصنف اس کے لیے دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔



غیر جانبدار اور آزاد صحافت کا ساتھ دیں!


نوکِ قلم نیوز ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے جو غیر جانبدار صحافت کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ نازیبا اشتہارات سے اجتناب کرتے ہوئے گوگل اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ سفر آپ کے تعاون کا محتاج ہے۔ خصوصاً قلم کار حضرات سے گزارش ہے کہ ہفتہ وار یا ماہانہ مالی تعاون کے ذریعے اس مشن کو جاری رکھنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ شکریہ!